Author Topic: ‘آن لائن تعلیم کتنی قابل عمل ؟ نصاب کیسے مکمل ہوگ  (Read 342 times)

Offline sb

  • Good Member Group
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 29120
  • My Points +5/-0
  • Gender: Female

دنیا فورم میں جامعات اور اسکولوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین تعلیم نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ تعلیم اور صحت پر بجٹ بڑھائے ،آن لائن تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے تو پھر ایسی سہولتیں بھی دے جو ضروری ہیں،یعنی بجلی کی بلاتعطل فراہمی،طلبہ اور اساتذہ کو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ مفت دیاجائے ،اساتذہ کی تنخواہیں کاٹنے کے بجائے انہیں سہولتیں دیں،ماہرین نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کے پاس تعلیم جاری رکھنے کیلئے کوئی واضح منصوبہ بندی نہیں،دنیا فورم میں یہ الزام بھی عائد کیاگیا کہ آن لائن تعلیم نجی اداروں کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ ہے ،عالمی بینک کی دخل اندازی ہے ،سوال بھی اٹھائے گئے کہ کیا آن لائن تعلیم سے پریکٹکل کرائے جاسکتے ہیں،ان تحفظات کے باوجود یہ تسلیم کیاگیا کہ تعلیم کا تسلسل جاری رکھنے کیلئے یہ ایک حل ہے تاہم بعض ماہرین کا خیال تھا کہ حکومت جب تجارتی مراکز اور سرکاری دفاتر ایس او پیز کے تحت کھول سکتی ہے تو پھر تعلیمی اداروں نے کیا قصور کیا ہے ۔بہر حال دنیا فورم نے ان لالھوں طلبہ کا مسئلہ اٹھایا ہے اور امید ہے کہ حکومت وقت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی بہتر حل نکالے گی۔آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔(مصطفی حبیب صدیقی،

دنیا: موجودہ حالات میں آن لائن کلاسز ممکن ہیں؟آپ نے آغاز کیا ،کیسا تجربہ رہا؟

سید طارق رحمٰن : دنیا میں وہی رہے گا جو رہنا چاہتاہے ہرمشکل کے پیچھے آسانی ہوتی ہے ،ملک میں35فیصد بچے انٹرنیٹ استعمال کررہے بچے زیادہ وقت موبائل گیمز پر لگے رہتے ہیں لیکن آن لائن تعلیم کو وقت نہیں دے رہے ۔علامہ اقبال کا شعر ہے کہ ‘‘آئین نو سے ڈرنا ،طرز کہن پر اڑنا۔منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں’’۔ آن لائن تعلیم ہماری تعلیم کا متبادل نہیں لیکن تعلیم جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے موجودہ صورحا ل کے پیش نظر آن لائن تعلیم سے بچوں کو پڑھائی سے منسلک رکھ سکتے ہیں، سوشل سائنس کہتی ہے کوئی بھی رویہ 66 دنوں میں اسکا عادی ہوجاتاہے عادت بگڑجاتی یا بن جاتی ہے ، اس وقت ہمارا بچہ گھر بیٹھا کیا کررہا ہے وہ آٹھ آٹھ گھنٹے موبائل اور گیم پر لگاہواہے ، گھروں میں بچے موبائل کا غلط استعمال کررہے ہیں،گزشتہ ہفتے 75والدین سے بات ہوئی وہ ہاتھ جوڑ کر کہہ رہے ہیں کچھ کریں والدین بچوں سے پریشان ہیں ،بچے رات بھر جاگتے او دن بھر سوتے ہیں ہمارے پاس آن لائن ایجوکیشن کے سوا کیا متبادل ہے ؟،ان حالات میں ضروری ہے ان بچوں کو ایسی مصروفیت دی جائے جس سے یہ ضائع نہ ہوں ،اسکولوں میں کبھی آئی ٹی کواہمیت نہیں دی گئی ،اگریہ متحرک ہوتے تو شاید ہم آن لائن نظا م کو آسانی سے سمجھ لیتے ۔اس وقت کچھ چیزیں ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں،انٹرنیٹ پر زوم اور اسکائپ، میٹنگ اور کانفرنس کیلئے تو اچھے ہیں لیکن اسکولوں اور کالجوں کیلئے کامیاب نہیں ،ہمارا پہلا ادارہ ہے جس نے مائیکرو سافٹ365 ورچوئل آن لائن کا سافٹ ویئرخریدا جو آن لائن اسکولوں کیلئے خاص ہے ،جس کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے ،جس میں بچوں کی 80فیصد حاضری تھی بچوں نے دلچسپی سے کلاسز لیں،اس میں لیکچرز بھی ریکارڈ کیے ، اسکول میں 260سے زائد بچے آن لائن کلاسز میں شامل تھے ، اچھا تجربہ رہا۔

دنیا:جامعہ کراچی میں کلاسز نہ ہونے سے طلباء پریشان ہیں،آن لائن کلاسز میں پریکٹیکل کس طرح ہوںگے ؟

ڈاکٹر ریاض : جامعہ کراچی سرکاری ادارہ ہے جوایکٹ کے تحت چلتا ہے ،ایکٹ میں کسی بھی اجلاس کا وقت اور جگہ بتانا ضروری ہوتاہے ،آن لائن اجلاس بلاتے ہیں تو جگہ کیا ہوگی ؟، 150 سے زائداکیڈمک کونسل کے ممبران کو آن لائن اجلاس کیلئے بلایا گیا جس میں سے 58ممبران شریک ہوئے ،جب اجلاس شروع ہوا اس وقت صرف 28ممبران تھے ۔ تکنیکی مسائل کی وجہ سے اجلاس کامیاب نہیں ہوسکا۔آن لائن تعلیم دنیا بھر میں مسترد ہوچکی ،کراچی میں 3 سال قبل آن لائن ڈگری کا بہت بڑا اسکینڈل بھی پکڑا گیا تھا ،ورچوئل یونیورسٹیاں بھی ایسا ہی کررہی ہیں کسی کا دفتر امریکا اورکسی کا کہاں ہے ،کچھ پتہ نہیں ہوتا کہاں ہے ۔آن لائن ایجوکیشن غریب بچوں کو ناکام کرنے کا نظام بن جاتی ہے ۔آن لائن تعلیم کے پیچھے زیادہ دباؤپرائیویٹ اسکولزاور انسٹی ٹیوشنز کا ہے ، ان کو فیس چاہیے ،تعلیم انکا کاروبار ہے ،سب کو معلوم ہے ان کا کاروبار رک گیا ہے یہ پہلے بھی طلباء کو رعایت نہیں دیتے تھے اب بھی ایسا ہی کررہے ہیں یہ سار ا بوجھ والدین پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

دنیا : بچوں کے نہ ہونے سے پرائیویٹ اسکولوں کے اخراجات کم ہوئے اس کے باوجود فیسیں کم نہیں ہورہیں کیا وجہ ہے ؟

طارق رحمٰن :اسکول وہ جگہ ہے جہاں چھٹیوں میں بھی خرچ کم نہیں ہوتا،اسکول کا سب سے بڑا خرچہ عمارت کا کرایہ ہے جو اسے ہرصورت دیناہے ،اساتذہ کی تنخواہیں ،یوٹیلیٹی بلز یہ سب فیس سے ہی ادا ہوتے ہیں ،حکومت نے فیسوں میں کمی کا کہا اس پرعمل کررہے ہیں۔

شاکر اللہ :کورونا سے اسکولوں پر بھی اخراجات بڑھے ،آن لائن ایجوکیشن کیلئے الیکٹرانک کے سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا جو مائک کورونا سے پہلے 700کاملتا تھا وہ 3300کا بھی نہیں مل رہا ،دکانداروں کے پاس چیزیں ہیں لیکن نہیں دے رہے انہیں معلوم ہے بڑا اسکول آئیگا تو اسے مہنگا فروخت کرینگے ، اساتذہ کا سوشل سیکورٹی فنڈکٹتاہے جو لاکھوں بن جاتاہے ،سیسی کانظام اتنا پیچیدہ ہے جس سے ٹیچر کو فائدہ نہیں ہوتا،فورم کے توسط سے حکومت سے درخواست ہے اس فنڈ کو فوری طورپرمعاف کردیا جائے ۔

ڈاکٹرریاض:ملک میں وسائل تھے او رہیں ،یہ وبائیں ،حادثات اور جنگیں ہمارا باطن ظاہر کردیتی ہیں،جب سے ورلڈبینک نے پیسہ دینا شروع کیا ہے پرائیویٹ سیکٹر خاص طورپر تعلیم کا بیڑا غرق ہوگیا،مسائل حل نہ ہونے پر بحران میں بھی مطالبہ کرنے کا حق ہوتاہے ۔ جب تمام کاروبار ی اور تجارتی مراکز کھولے جاسکتے ہیں تو تعلیمی اداروں کو کیوں روکا جارہا ہے ۔ اساتذہ نے ریاست سے مانگناشروع کردیا تو ریاست کی ترجیحات بدل جائیں گی یہ ویسا ہی دور ہے جب 1963ء میں لوگ متحدہوناشروع ہوئے پورا معاشرہ ساتھ کھڑا ہوگیااو ر وہی لوگ جو کہتے تھے ریاست کیسے دے سکتی ہے انہوں نے باقاعدہ نیشنلائز کرکے قوانین بناکر ایک ایک اسکول کے چپڑاسی تک کو یونین کا حق دیا۔ سارے پرائیویٹ اسکولز اور یو رسٹیوں کی نیشنلائز یشن ہونی چاہیے ، ساری پرائیویٹ انڈسٹری کو سرکاری تحویل میں لے لیاجائے ۔ ریاست بڑے لوگوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دے سکتی ہے توگھروں میں لوگوں کو 10ہزار وپے کیوں نہیں دے سکتی؟۔

ڈاکٹر کمال حیدر: ہم امریکا ،ہالینڈ یا کسی ترقیافتہ ملک میں نہیں رہ رہے ،یہاں آن لائن تعلیم کیسے حاصل کریں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں،اساتذہ کی تربیت نہیں ،شہروں میں نیٹ کنکشن صحیح طرح کام نہیں کرتے ،اس ماحول میں آن لائن تعلیم کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ،میراسوال ہے کہ کیا ہمارے ملک میں اساتذہ اور طلباء کو لیپ ٹاپ،انٹرنیٹ ڈیوائس اور بجلی کی سہولتیں دستیاب ہیں؟ ،طلباء کی فیسیں معاف کی جائیں ، ٹیچرز کو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے توآن لائن نظام چل سکتاہے ،حکومت چاہتی ہے بغیر سہولتوں کے دیگر ممالک کی طرح آن لائن نظام رائج ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا،وفاقی اردو یونیورسٹی کئی مرتبہ وفاق کو لکھ کر دے چکی کہ ہمارے پاس وہ سہولتیں نہیں ہیں جن سے طلباء کو آن لا ئن تعلیم دے سکیں ،ایل ایم ایس لرننگ منیجمنٹ سسٹم ( ایل ایم ایس) ٹیچر ز کی تربیت کا نظام نہیں،ایل ایم ایس میں صرف چیزیں منظم کی جاتی ہیں ،اساتذہ پڑھا پڑھا کر تھک گئے کہ نظام تعلیم کا انحصار طلباء پر ہے ،اساتذہ یا حکومت پر نہیں،پاکستان کے نوجوان اور طلباء کہہ رہے کہ ہم سے یہ نہیں ہوپارہا ،یہ مناسب نہیں کہ حکومت یونیورسٹیوں اور کالجوں پر دباؤ ڈالے ،یہاں مسئلہ یونیورسٹی یاکالجوں کا نہیں ریاست کاہے ،حکومت کی ذمہ داری ہے وہ آگے آئے اور ترجیح بنیادوں پراس مسئلے کا حل نکالے ،اور ایک یونیفارم پالیسی دے ،حکومت اور ایچ ای سی کوئی پالیسی نہیں دے پارہی توہم کیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں ، مسائل سے نمٹنے کیلئے ٹیچرز کی تربیت نہیں ،مختلف یونیورسٹیاں اپنے ایم فل ،پی ایچ ڈی کو ٹریننگ دی رہی ہیں اور توقع کررہی ہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والا ماں کے پیٹ سے سب کچھ سیکھ کر آیا ہوگا؟ ہر اسمارٹ موبائل آن لائن سسٹم کو سپورٹ نہیں کرتا، حکومت طلباء کی فیسیں کیو ں نہیں معاف کرتی؟آن لائن کلاسوں میں فزکس اور کیمسٹری کے پریکٹیکل کیسے کرائے جاسکتے ؟ ڈاکٹر آپریشن کرنا کیسے سیکھ سکتا ہے ،ہم آن لائن نظام کے خلاف نہیں،اس نظام کو چلانے کیلئے سہولتوں کی بات کررہے ہیں ،امریکا میں اساتذہ ،طلباء اور والدین کو بھی لیپ ٹاپ اوردیگر سہولتیں دی گئیں تاکہ آن لائن تعلیم میں کوئی مسائل نہ ہوں،جبکہ ہماری تنخواہیں کاٹی جارہی ہیں ،لوگوں کو فقیروں کی طرح 12,12ہزار روپے دیئے جارہے ہیں،جب حکومت سب کچھ کھول رہی ہے تو تعلیمی ادارے کیوں بند ہیں،طلباء نے ان کا کیا بگاڑا ہے ،ایس او پیز کیساتھ تعلیمی ادارے بھی کھولیں جائیں۔ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر 188 یونیوسٹیاں ہیں اس میں سے 40پرائیویٹ ہیں،جوفیس کی وجہ سے آن لائن تعلیم کو زیادہ فوکس کررہی ہیں حالانکہ وہ یونیورسٹیاں ارب پتی لوگوں کی ہیں،پڑھائی ان کا کاروبار ہے یہ طلباء کو فیسیں کیسے چھوڑیں گے ،حکومت کی ذمہ داری ہے جب وہ عوام سے ٹیکس لے رہی ہے توعوام کیلئے تعلیم او ر صحت کی سہولتیں فراہم کرے ،تعلیم پر جی ڈی پی کا تناسب آٹے میں نمک سے بھی کم ہے ،تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا ڈکٹیٹرنے تعلیم کیلئے جمہوریت پسندوں کے مقابلے میں زیادہ فنڈز استعمال کیے ۔

دنیا: پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن کی کیاصورت حال ہے ،طلباء اور مالکان کو کن مسائل کا سامنا ہے ؟

انتصار احمد:پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان بچوں پر مشتمل ہے جو اسکول جاتے ہیں۔میرا سوال ہے کہ کیا ہمارا ملک ان جدید سہولتوں سے آراستہ ہے ،کیا ہمارے ملک میں شرح خواندگی اس قابل ہے کہ ہم آن لائن تعلیم کا نظام شروع کرسکیں ؟۔حکومت نے پی ٹی وی پر ایک ماہ قبل ٹیلی اسکول کے نام سے آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیاجس میں صبح 8سے شام 4بجے تک کلاسز کے سیگمنٹ بنائے گئے ،کئی والدین سے اس پروگرام کے حوالے سے بات ہوئی ،اکثریت کو اس پروگرام کا معلوم ہی نہیں تھا،کچھ اساتذہ اور طلباء نے سمجھنے کی کوشش کہ لیکن انہیں سمجھ نہیں آیا ،ہمارے گھروں میں آن لائن تعلیم کا ماحول ہی نہیں ،جب تک والدین کوآن لائن تعلیم کا فالواپ پروگرام نہیں دیں گے تعاون نہیں کریںگے ، کراچی کے مضافاتی علاقوں میں بچوں کی بڑی تعداد اسکول کے بعدمحنت مزدوری یادیگرکام کرتی ہے وہ آن لائن تعلیم کیسے حاصل کریںگے ؟،ملک میں امیر علاقے صرف چار یا پانچ فیصد ہیں جہاں بچے آن لائن تعلیم حاصل کرسکتے ہیں،کیاحکومت صرف ان علاقوں کیلئے آن لائن کلاسز کا آغاز کررہی ہے ؟بچوں کی پڑھائی نہ ہونے سے پریشان والدین رابطہ کررہے ہیں،دنیا فورم کے توسط سے حکومت سے مطالبہ ہے کہ جس طرح دیگر اداروں کوکاروبار کی جازت ہے تعلیمی اداروں میں بھی ایس او پیزکے ساتھ طلباء کو تعلیم حاصل کرنے دی جا ئے ،حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے ان اداروں کا چیک اینڈ بیلنس رکھے اور آگہی دے جو ادارے عمل نہیں کریں ان کیخلاف کارروائی کی جا ئے ۔ حکومت کی طرف سے پابندی ہو کہ ایم پی اے اور ایم این اے کے بچے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں پڑھیں تعلیمی اداروں کی حالت بہتر ہوجائے گی۔

دنیا: سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں ایس او پیز پر عمل ہورہاہے ؟ پسماندہ علاقوں میں کیا صورت حال ہے ؟

دنیا فورم میں سعودی عرب ریاض سے آن لائن گفتگوکرتے ہوئے لبنیٰ مسعود نے کہا کہ ہمارے اسکول میں گزشتہ 8سا ل سے آن لائن تعلیم جاری ہے ۔ ہمارے پاس آن لائن ایجوکیشن کیلئے ساری سہولتیں ہیں ، ہمیں پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ حقیقت ہے اب دنیا آن لائن تعلیم کی طرف جارہی ہے ،اگر ہم نے اپنے آپ کو بدلتے وقت کے ساتھ نہیں بدلا توآگے نہیں بڑھ سکتے ۔آن لائن کلاسز میں زیادہ ریکارڈ لیکچر ز اور وڈیوز ہوتی ہیں جو طلباء اپنے وقت کے مطابق ترتیب دے سکتے ہیں۔ سعودی عرب میں بھی کچھ اسکول ایسے ہیں جیسے پاکستان میں پیلے اسکول ،انہیں پاکستانی کمیونٹی آگاہی دے رہی ہے ۔بچے کو آن لائن تعلیم دینے کیلئے ضروری ہے والدین گھر کا ماحول بنائیں اور وقت نکالیں ،ہمارے پاس آن لائن تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا 80فیصد نتیجہ آیا ہے ،روزانہ 70سے 80فیصد حاضری ہے ،سعودی عرب میں طلباء کو راغب کرنے کیلئے 40فیصد فیسیں معاف کردی گئی ہیں۔والدین میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ جب میرا بچہ آن لائن کلاس لے رہا ہے تو پھر ہم اتنی بھاری فیس کیوں دیں؟۔

دنیا: کیا والدین آن لائن سسٹم سے مطمئن ہیں؟

عظیم صدیقی : ہم73سال کے بعد بھی بچوں کو رسمی تعلیم بھی نہیں دے سکے آن لائن تعلیم کیسے دیں گے ؟ایک سروے میں طلباء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ کیا یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بات کی یقین دہانی کرلی ہے کہ آن لائن تعلیم دینے والے اساتذہ جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہیں ؟کیا ان اساتذہ کے پاس آن لائن کلاسز کیلئے ساری سہولتیں موجود ہیں،یہ ان بچوں کی شکایات ہیں جو آن لائن کلاسز لے سکتے ہیں ،جو کلاسز نہیں لے سکتے وہ الگ مسئلہ ہے ، پرائیویٹ سیکٹر میں بڑے اسکولز تو کسی حد تک آن لائن تعلیم شروع کرلینگے لیکن چھوٹے اسکولز اس سسٹم کو فالونہیں کرپائیں گے ۔حکومت بازاروں اور گاڑیوں میں لوگوں کو جانے کی ا جازت دے رہی ہے تو طلباء کو یونیورسٹی اور کالجوں میں جانے سے کیوں روکا جارہاہے ،طلباء باشعور ہوتے ہیں وہ ایس او پیز کے ساتھ تعلیم حاصل کرسکتے ہیں ۔آن لائن تعلیم کی بھی ایس او پیز تیار ہونے چاہیے ،کتنی دیر اسکرین کے سامنے بیٹھنا ہے ،ہیڈفون کتنا استعمال کرنا ہے ،اگریہی صورت حال رہی تو جو بچے آن لائن کلاسزلے رہے ہیں،ہیڈفون کے زیادہ استعمال سے دماغی امراض بھی بڑھ سکتے ہیں جس پر ایک نئی تحقیق شروع ہوجائے گی ،حکومت متعلقہ لوگوں سے مشورہ کرے کہ آن لائن کلاسز کن ایس ایو پیز کے ساتھ ہونے چاہئیں،چھوٹے بچے اگر لیپ ٹاپ اور ہیڈفون کا استعمال کریں گے تو صحت پر مضر اثرات سامنے آسکتے ہیں۔بہت سے نجی اسکول دیوالیہ ہونے والے ہیں،کتنی ہی ایسی بچیاں ہیں جو اپنے گھروں کی کفیل ہیں ا ورانہیں تین چار ماہ سے تنخواہیں نہیں مل رہیں،حکومت ایسے لوگوں کو بھی ریلیف دے ۔کراچی میں بھی کچھ سرکاری اسکولز ا یسے ہیں جہاںتعلیم نہیں ہے ۔جب تک محاسبہ نہیں ہوگا ادارے بہتر نہیں ہوںگے ۔

دنیا: گھروں میں خواتین اساتذہ اور طالبات کو آن لائن کلاسز میں کن مسائل کا سامنا ہے ؟

پروفیسر ڈاکٹرحمید ہ : اساتذہ گھر وں میں رہتے ہوئے طلباء کو تعلیم دے رہے ہیں، ایک شیڈول بنایا ہے ،گھرمیں پڑھا ئی کا ماحول بنانا ہوتا ہے تب ہی پڑھ سکتے ہیں،گھر میں پڑھائی کے دوران گھریلو کام نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کو دخل اندازی کی اجازت ہوتی ہے ،پڑھا ئی کے وقت صرف پڑھائی ہوتی ہے ،کمرے میں کلاس کاماحول بنانا ہوتا ہے ،جب تک خود چیزوں کو ترتیب نہیں دینگے کامیاب نہیں ہوںگے ،لیکن آن لائن تعلیم اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کا نعمل بد ل نہیں۔سرکاری سیکٹر کی نسبت پرائیوٹ سیکٹر کسی حد تک آن لائن تعلیم پر کام کررہا ہے ،پرائیویٹ سیکٹر میں اساتذہ اتنے ماہر نہیں ہوتے لیکن انہیں تربیت دے کرکا م لے لیا جاتاہے ،معاشرے میں تبدیلیاں آتی ہیں ہمیں وقت کے ساتھ چلنا چاہیے ۔

لبنیٰ مسعود:آن لائن تعلیم کلاس رومز کی تعلیم کا نعمل بدل نہیں ،امریکا، لند ن اوردیگر ممالک میں آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے طلباء کو مصروف رکھا ہوا ہے ،آن لائن تعلیم کا مقصد طلباء تک تعلیم پہچاناہے ،سیکنڈری کی سطح پر بھی بچوں کوپڑھائی کے ساتھ تحقیق کے کام بھی کرائے جارہے ہیں ، آن لائن کلاسز سے پہلے ٹیچر ز کی تربیت ضروری ہے ،ہم نے اسکول میں آن لائن کلاسز سے پہلے ٹیچر ز کی تربیت کی پھر کلاسز کا آغاز کیا۔

شاکر اللہ:ہم ورچوئل کلاسز اور میٹنگ کو ایک سمجھ رہے ہیں،ورچوئل کلاسز کا ماحول الگ ہوتاہے ۔ہمار ے اسکولز اور ادارے ورچوئل کی طرف نہیں جارہے ۔گوگل پرآن لائن کلاس رومز دیکھے ،وہاں پر طلباء کو ایک ورچوئل ماحول ملتا ہے وہ قید نہیں ہوتا،ہم نے طلبا ء کوتین ماہ گھر بٹھادیا اس کا متبادل کیا ہے ،متبادل ورچوئل کلاس رومز ہے زو م کی میٹنگ نہیں،بہت سے لوگ کہتے ہیں انٹرنیٹ کا صحیح استعمال نہیں ہورہا 29ملین ایس ایم ایس فی منٹ واٹس ایپ ہورہے ہیں جو قوم اتنے ایس ایم ایس کرسکتی ہے کیا وہ اپنے بچے کو آن لائن کلاسز نہیں دے سکتی؟عثمان پبلک اسکول میں 1200اساتذہ ہیں جن کیلئے مختلف آن لائن پیکیج اورطلباء کیلئے اسائمنٹ بنائے جو انہوں نے جمع بھی کرائے ،ورچوئل کلاس ،فزیکل کلاس جیسی نہیں ہوتی،اگر یہاں سے طلباء کو 40فیصد بھی تعلیم مل جائے تو بہت ہے ،کم از کم طالب علم پڑھائی میں مصروف توہے ،آن لائن تعلیم میں طلباء کو ورچوئل سسٹم ملتاہے جو ہمارے پاس نہیں،قومی اسمبلی کا اجلاس ورچوئل نظام کے تحت ہوسکتاہے تو

یونیورسٹی میں تعلیم کیوں نہیں دی جاسکتی ؟،دنیا 5جی کی طر ف جارہی ہے ،آئندہ 2سال میں 5جی ایسا ہوگاجیسے آج 4جی ہے ،ہمیں قانون سازی کرکے ان چیزوں کو فالو کرنا ہوگا،عثمان پبلک اسکول نے اپنا چینل بنایا ہے جس میں اساتذ ہ بچوں کو لیکچر دیتے ہیں جسے طلباء فالو بھی کررہے ہیں ،ریکارڈ لیکچرز بھی ہیں،بچے اسائمنٹ کے بارے میں اساتذہ سے بات بھی کرتے ہیں،بینک والدین کو آسان اقساط میں لیپ ٹاپس اور ڈیوائس کیلئے قرض دے جن پر سود نہ ہو۔

 کورونا کی وجہ سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کوشش کررہے ہیں کہ طلباء کو آن لائن تعلیم دی جائے انہیں سمجھ میں آئے یا نہ آئے ،سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں آن لائن تعلیم کسطرح دی جاسکتی ہے انکے پاس آن لائن تعلیم دینے کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔طلباء کے داخلے بھی نہیں ہوئے اور نہ ہی ان سے رابطے کیلئے نمبر ہے ،حالانکہ انٹرمیڈیٹ سائنس میں زیادہ ترسرکاری کالجوں کے طالب علموں کی پوزیشن آتی ہے ،کورونا وائرس کی بڑھتی تعداد کے باوجود کارخانے ،فیکٹریاں ،بازار ،ایکسائز ٹیکسیشن کے دفاتر ،ٹرانسپورٹ سب کھلے ہیں اور اب قربانی کے جانوروں کیلئے منڈیاں بھی لگانے کی تیاری ہے لیکن تعلیمی ادارے کیوں بندہیں کیا کورونا تعلیمی اداروں میں ہی پھیلے گا؟،سرکاری اداروں کے ملازمین کو تنخواہیں مل رہی ہیں لیکن چھوٹے پرائیویٹ اداروں کے ملازمین جن میں اساتذہ،کلرک،لیب اسٹاف ،چوکیدار،خاکروب اور دیگر عملہ تنخواہوں سے محروم ہیں ان کیلئے سوچاجائے ؟

 دنیا فورم میں شرف الزمان ،انواراحمد زئی اور ڈاکٹر آصف فاروقی کے انتقال پر تعزیت کی گئی۔شرکاء نے تعلیم کے میدان میں مرحومین کے کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا انہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔واضح رہے کہ آل پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے چیئرمین شرف الزمان دنیا فورم میں مدعو تھے ہفتے کی شام انہو ں نے فون پر گفتگو بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ طبیعت خراب ہے تاہم خواہش ہے کہ کچھ بہتری آئے تو فورم میں ضرور شریک ہوں تاہم وہ رات کو ہی ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ۔
حوالہ: جنگ نیوز لاہور مورخہ 01 جولائی 2020ء
If you born poor, its not your fault....But if you die poor, its your fault...."Bill Gates"