Author Topic: جامعہ کراچی میں کلاسز نہ ہونے سے طلباء پریشان ہیں،آن لائن کلاسز میں پریکٹیکل کس  (Read 553 times)

Offline sb

  • Good Member Group
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 29120
  • My Points +5/-0
  • Gender: Female
جامعہ کراچی میں کلاسز نہ ہونے سے طلباء پریشان ہیں،آن لائن کلاسز میں پریکٹیکل کس طرح ہوںگے ؟
ڈاکٹر ریاض : جامعہ کراچی سرکاری ادارہ ہے جوایکٹ کے تحت چلتا ہے ،ایکٹ میں کسی بھی اجلاس کا وقت اور جگہ بتانا ضروری ہوتاہے ،آن لائن اجلاس بلاتے ہیں تو جگہ کیا ہوگی ؟، 150 سے زائداکیڈمک کونسل کے ممبران کو آن لائن اجلاس کیلئے بلایا گیا جس میں سے 58ممبران شریک ہوئے ،جب اجلاس شروع ہوا اس وقت صرف 28ممبران تھے ۔ تکنیکی مسائل کی وجہ سے اجلاس کامیاب نہیں ہوسکا۔آن لائن تعلیم دنیا بھر میں مسترد ہوچکی ،کراچی میں 3 سال قبل آن لائن ڈگری کا بہت بڑا اسکینڈل بھی پکڑا گیا تھا ،ورچوئل یونیورسٹیاں بھی ایسا ہی کررہی ہیں کسی کا دفتر امریکا اورکسی کا کہاں ہے ،کچھ پتہ نہیں ہوتا کہاں ہے ۔آن لائن ایجوکیشن غریب بچوں کو ناکام کرنے کا نظام بن جاتی ہے ۔آن لائن تعلیم کے پیچھے زیادہ دباؤپرائیویٹ اسکولزاور انسٹی ٹیوشنز کا ہے ، ان کو فیس چاہیے ،تعلیم انکا کاروبار ہے ،سب کو معلوم ہے ان کا کاروبار رک گیا ہے یہ پہلے بھی طلباء کو رعایت نہیں دیتے تھے اب بھی ایسا ہی کررہے ہیں یہ سار ا بوجھ والدین پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
 بچوں کے نہ ہونے سے پرائیویٹ اسکولوں کے اخراجات کم ہوئے اس کے باوجود فیسیں کم نہیں ہورہیں کیا وجہ ہے ؟

طارق رحمٰن :اسکول وہ جگہ ہے جہاں چھٹیوں میں بھی خرچ کم نہیں ہوتا،اسکول کا سب سے بڑا خرچہ عمارت کا کرایہ ہے جو اسے ہرصورت دیناہے ،اساتذہ کی تنخواہیں ،یوٹیلیٹی بلز یہ سب فیس سے ہی ادا ہوتے ہیں ،حکومت نے فیسوں میں کمی کا کہا اس پرعمل کررہے ہیں۔

شاکر اللہ :کورونا سے اسکولوں پر بھی اخراجات بڑھے ،آن لائن ایجوکیشن کیلئے الیکٹرانک کے سامان کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا جو مائک کورونا سے پہلے 700کاملتا تھا وہ 3300کا بھی نہیں مل رہا ،دکانداروں کے پاس چیزیں ہیں لیکن نہیں دے رہے انہیں معلوم ہے بڑا اسکول آئیگا تو اسے مہنگا فروخت کرینگے ، اساتذہ کا سوشل سیکورٹی فنڈکٹتاہے جو لاکھوں بن جاتاہے ،سیسی کانظام اتنا پیچیدہ ہے جس سے ٹیچر کو فائدہ نہیں ہوتا،فورم کے توسط سے حکومت سے درخواست ہے اس فنڈ کو فوری طورپرمعاف کردیا جائے ۔

ڈاکٹرریاض:ملک میں وسائل تھے او رہیں ،یہ وبائیں ،حادثات اور جنگیں ہمارا باطن ظاہر کردیتی ہیں،جب سے ورلڈبینک نے پیسہ دینا شروع کیا ہے پرائیویٹ سیکٹر خاص طورپر تعلیم کا بیڑا غرق ہوگیا،مسائل حل نہ ہونے پر بحران میں بھی مطالبہ کرنے کا حق ہوتاہے ۔ جب تمام کاروبار ی اور تجارتی مراکز کھولے جاسکتے ہیں تو تعلیمی اداروں کو کیوں روکا جارہا ہے ۔ اساتذہ نے ریاست سے مانگناشروع کردیا تو ریاست کی ترجیحات بدل جائیں گی یہ ویسا ہی دور ہے جب 1963ء میں لوگ متحدہوناشروع ہوئے پورا معاشرہ ساتھ کھڑا ہوگیااو ر وہی لوگ جو کہتے تھے ریاست کیسے دے سکتی ہے انہوں نے باقاعدہ نیشنلائز کرکے قوانین بناکر ایک ایک اسکول کے چپڑاسی تک کو یونین کا حق دیا۔ سارے پرائیویٹ اسکولز اور یو رسٹیوں کی نیشنلائز یشن ہونی چاہیے ، ساری پرائیویٹ انڈسٹری کو سرکاری تحویل میں لے لیاجائے ۔ ریاست بڑے لوگوں کو اربوں روپے کی سبسڈی دے سکتی ہے توگھروں میں لوگوں کو 10ہزار وپے کیوں نہیں دے سکتی؟۔

ڈاکٹر کمال حیدر: ہم امریکا ،ہالینڈ یا کسی ترقیافتہ ملک میں نہیں رہ رہے ،یہاں آن لائن تعلیم کیسے حاصل کریں بجلی اور انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں،اساتذہ کی تربیت نہیں ،شہروں میں نیٹ کنکشن صحیح طرح کام نہیں کرتے ،اس ماحول میں آن لائن تعلیم کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ،میراسوال ہے کہ کیا ہمارے ملک میں اساتذہ اور طلباء کو لیپ ٹاپ،انٹرنیٹ ڈیوائس اور بجلی کی سہولتیں دستیاب ہیں؟ ،طلباء کی فیسیں معاف کی جائیں ، ٹیچرز کو لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کی سہولت دی جائے توآن لائن نظام چل سکتاہے ،حکومت چاہتی ہے بغیر سہولتوں کے دیگر ممالک کی طرح آن لائن نظام رائج ہوجائے ایسا نہیں ہوسکتا،وفاقی اردو یونیورسٹی کئی مرتبہ وفاق کو لکھ کر دے چکی کہ ہمارے پاس وہ سہولتیں نہیں ہیں جن سے طلباء کو آن لا ئن تعلیم دے سکیں ،ایل ایم ایس لرننگ منیجمنٹ سسٹم ( ایل ایم ایس) ٹیچر ز کی تربیت کا نظام نہیں،ایل ایم ایس میں صرف چیزیں منظم کی جاتی ہیں ،اساتذہ پڑھا پڑھا کر تھک گئے کہ نظام تعلیم کا انحصار طلباء پر ہے ،اساتذہ یا حکومت پر نہیں،پاکستان کے نوجوان اور طلباء کہہ رہے کہ ہم سے یہ نہیں ہوپارہا ،یہ مناسب نہیں کہ حکومت یونیورسٹیوں اور کالجوں پر دباؤ ڈالے ،یہاں مسئلہ یونیورسٹی یاکالجوں کا نہیں ریاست کاہے ،حکومت کی ذمہ داری ہے وہ آگے آئے اور ترجیح بنیادوں پراس مسئلے کا حل نکالے ،اور ایک یونیفارم پالیسی دے ،حکومت اور ایچ ای سی کوئی پالیسی نہیں دے پارہی توہم کیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں ، مسائل سے نمٹنے کیلئے ٹیچرز کی تربیت نہیں ،مختلف یونیورسٹیاں اپنے ایم فل ،پی ایچ ڈی کو ٹریننگ دی رہی ہیں اور توقع کررہی ہیں کہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والا ماں کے پیٹ سے سب کچھ سیکھ کر آیا ہوگا؟ ہر اسمارٹ موبائل آن لائن سسٹم کو سپورٹ نہیں کرتا، حکومت طلباء کی فیسیں کیو ں نہیں معاف کرتی؟آن لائن کلاسوں میں فزکس اور کیمسٹری کے پریکٹیکل کیسے کرائے جاسکتے ؟ ڈاکٹر آپریشن کرنا کیسے سیکھ سکتا ہے ،ہم آن لائن نظام کے خلاف نہیں،اس نظام کو چلانے کیلئے سہولتوں کی بات کررہے ہیں ،امریکا میں اساتذہ ،طلباء اور والدین کو بھی لیپ ٹاپ اوردیگر سہولتیں دی گئیں تاکہ آن لائن تعلیم میں کوئی مسائل نہ ہوں،جبکہ ہماری تنخواہیں کاٹی جارہی ہیں ،لوگوں کو فقیروں کی طرح 12,12ہزار روپے دیئے جارہے ہیں،جب حکومت سب کچھ کھول رہی ہے تو تعلیمی ادارے کیوں بند ہیں،طلباء نے ان کا کیا بگاڑا ہے ،ایس او پیز کیساتھ تعلیمی ادارے بھی کھولیں جائیں۔ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر 188 یونیوسٹیاں ہیں اس میں سے 40پرائیویٹ ہیں،جوفیس کی وجہ سے آن لائن تعلیم کو زیادہ فوکس کررہی ہیں حالانکہ وہ یونیورسٹیاں ارب پتی لوگوں کی ہیں،پڑھائی ان کا کاروبار ہے یہ طلباء کو فیسیں کیسے چھوڑیں گے ،حکومت کی ذمہ داری ہے جب وہ عوام سے ٹیکس لے رہی ہے توعوام کیلئے تعلیم او ر صحت کی سہولتیں فراہم کرے ،تعلیم پر جی ڈی پی کا تناسب آٹے میں نمک سے بھی کم ہے ،تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا ڈکٹیٹرنے تعلیم کیلئے جمہوریت پسندوں کے مقابلے میں زیادہ فنڈز استعمال کیے ۔
If you born poor, its not your fault....But if you die poor, its your fault...."Bill Gates"