PakStudy :Yours Study Matters

Examination Board => Examination Board In Sindh => Karachi Secondary Board => Topic started by: AKBAR on April 08, 2019, 12:16:36 PM

Title: کراچی میٹرک بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر سعید الدین کا انٹرویو
Post by: AKBAR on April 08, 2019, 12:16:36 PM
کراچی  میٹرک بورڈ کے چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین  کا خصوصی انٹرویو
انٹرویو : محترم جناب منور راجپوت صاحب  : فوٹو گرافر / عکاسی: اسرائیل انصاری
07 اپریل ، 2019

    پروفیسر ڈاکٹر، سعیدالدین اکتوبر 2016ء سے بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن، کراچی (میٹرک بورڈ) کے چیئرمین کی ذمّے داریاں نبھا رہے ہیں۔
اُنھوں نے ابتدائی تعلیم میرپورخاص، ایم ایس سی بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ اور ڈرگ کیمسٹری میں سندھ یونی ورسٹی، جام شورو سے پی ایچ ڈی کی۔
 عملی زندگی کا آغاز بہ طورِ لیکچرار کیا، پھر ترقّی کرتے ہوئے ڈائریکٹر کالجز کے عُہدے تک پہنچے اور پانچ برس تک اس حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔
گزشتہ دنوں ہماری اُن سے بورڈ کی کارکردگی، مسائل اور عوامی شکایات کے حوالے سے ایک خصوصی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی نذر ہے۔
س:اپنے خاندان، ابتدائی تعلیم اور کیرئیر کے بارے میں کچھ بتایئے؟
ج: میرے والدین قیامِ پاکستان کے بعد ممبئی سے ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ چوں کہ والد صاحب محکمۂ ریلوے میں ملازم تھے، تو ہم بھی اُن کے تبادلے کے ساتھ رہائش تبدیل کرتے رہے۔ مَیں نے بی ایس سی تک تعلیم میرپورخاص سے حاصل کی، پھر بلوچستان یونی ورسٹی، کوئٹہ سے اینالیٹیکل کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا۔
 اس کے بعد سندھ یونی ورسٹی سے کاربو ہائیڈریٹ کیمسٹری میں ایم فِل اور ڈرگ کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی۔ بعدازاں مجھے لیکچرر شپ مل گئی اور پہلی تقرّری ٹنڈو جان محمّد کالج میں ہوئی، جہاں تین برس رہا۔ پھر شاہ لطیف کالج، میرپورخاص میں تبادلہ ہوگیا،
 جس کا علاقے کے بڑے کالجز میں شمار ہوتا ہے۔ اسی دوران اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر ترقّی ملی۔دو برس ایس ایل کالج کا پرنسپل بھی رہا۔ بعدازاں، مجھے ڈائریکٹر کالجز میرپورخاص ریجن بنا دیا گیا اور 5سال تک اس عُہدے پر فائز رہا، اس عرصے میں جھڈو، سامارو اور مٹھی سمیت کئی شہروں میں نئے کالجز بنائے۔ اسی عُہدے پر کام کر رہا تھا کہ سرچ کمیٹی نے انٹرویو کے بعد کراچی میٹرک بورڈ کا چیئرمین منتخب کر لیا اور اکتوبر2016ء سے اس عُہدے پر کام کر رہا ہوں۔
س:کہا جاتا ہے کہ یہ سیاسی پوسٹنگ ہے؟
ج: مجھے اس سے اتفاق نہیں ۔ میرے خیال میں تو تمام بورڈز کے چیئرمین میرٹ اور سرچ کمیٹی کے ذریعے ہی آئے ہیں۔ خود مجھے علم نہیں تھا کہ اس عُہدے پر تعیّناتی ہوگی بھی کہ نہیں۔ مجھے کسی سفارش کے بغیر یہ عُہدہ ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھ سمیت تمام بورڈز کے چئیرمین آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
س:جب ذمّے داریاں سنبھالیں، تو بورڈ کے کیا حالات تھے یا کِن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟
ج: یہ سندھ کا سب سے بڑا بورڈ ہے، جس سے جنرل اور سائنس گروپ کے3 لاکھ60ہزار طلباء و طالبات منسلک ہیں۔ یہاں ایک روایتی سا ماحول تھا اور بہت سی چیزیں اصلاح طلب تھیں۔ مَیں سمجھتا ہوں، کاموں میں بلاجواز تاخیر کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے، کیوں کہ اس سے طلبہ کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ تو سب سے پہلے معاملات آسان بنانے پر توجّہ مرکوز کی۔ 3ہزار سے زائد نجی اسکولز کا بھی ہمارے بورڈ سے الحاق ہے، سندھ کے کسی اور بورڈ کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں نجی اسکول وابستہ نہیں ہیں۔ پہلے ان اسکولز کو ہر سال الحاق میں توسیع کے لیے بورڈ سے رجوع کرنا پڑتا تھا اور دو، چار ماہ اسی کام میں گزر جاتے تھے۔
 مَیں نے لمبا چوڑا فائل سسٹم ختم کر کے ڈاکیومنٹس پراسس مختصر کیا اور پھر الحاق کی مدّت بھی ایک سال سے بڑھا کر3سال کر دی۔ نیز، چوں کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے اور بچّوں کو مارکس شیٹس، مائیگریشن سرٹیفکیٹس وغیرہ کے لیے دُور دُور سے بورڈ آنا پڑتا ہے اور یہاں اُن کا بہت وقت ضایع ہوتا تھا، تو مجھے اس صُورتِ حال پر بڑی تشویش تھی اور چاہتا تھا کہ اس نظام کو بھی آسان بنانا چاہیے۔ الحمدللہ، ہم اس میں کام یاب رہے اور اب مارکس شیٹس، مائیگریشن سرٹیفکیٹس ایک گھنٹے میں جاری کر دیے جاتے ہیں۔
 یہ بورڈ 1951 ء میں قائم ہوا تھا اور سارا ریکارڈ مینوئل ہے، تو اسناد کی تصدیق ایک دشوار مرحلہ تھا۔
 آج کل تقریباً ہر ادارہ ملازمت سے پہلے امیدواروں کے کاغذات تصدیق کے لیے بورڈ بھجوا دیتا ہے، اس حوالے سے بہت زیادہ رَش رہتا ہے۔ لہٰذا، مَیں نے اس پورے نظام کو بھی کمپیوٹرائزڈ کروا دیا ہے اور اب5منٹ کے اندر اندر ویری فکیشن کا مرحلہ طے ہو جاتا ہے۔ یوں اداروں کو آسانی ہو گئی اور طلبہ کو بھی پریشانی سے نجات مل گئی۔
س:سہولتیں دی ہیں، تو فیسز بھی بڑھائی ہوں گی؟
ج: نہیں، بالکل نہیں۔ فیسز میں کوئی خاص اضافہ نہیں کیا، بہت معمولی ردّ وبدل ہوا ہے۔یوں سمجھیے، اگر پہلے کسی کام کی فیس بارہ سو تھی، تو اُسے تیرہ سو روپے کردیا گیا ہے۔ البتہ ہم نے اپنے اخراجات میں بچت کر کے بجٹ متوازن کر لیا ہے۔
س:بورڈ عملے پر کرپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں، اس کے تدارک کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے؟
ج: ہاں! یہ معاملات میرے علم میں ہیں اور بلاشبہ کچھ لوگ اس طرح کی مذموم سرگرمیوں میں ملوّث تھے۔
دراصل، ہمارے ہاں اداروں پر اعتماد کا فقدان ہے اور لوگ اپنا کام خود کرنے کی بجائے، شارٹ کٹ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ نیز، وہ دوسروں کے ذریعے کام کروانے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے اس طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہمارے پاس پہلے تین کائونٹرز تھے، اب چھے کر دیے گئے ہیں تاکہ طلبہ آسانی کے ساتھ فارمز جمع کروا سکیں،
 لیکن اس کے باوجود وہ سہارے تلاش کرتے ہیں اور اگر اس ضمن میں کوئی مسئلہ ہوجائے، تو الزام بورڈ کے سَر تھوپ دیا جاتا ہے۔ پھر مَیں نے اندرونی نگرانی اور احتساب کے نظام کو بھی متحرّک کیا ہے تاکہ خرابی کا سَر کُچلا جا سکے۔ اصل میں والدین کو اپنے بچّوں سے بہت سی توقّعات ہوتی ہیں، والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچّے پوزیشن لیں، ورنہ کم از کم اے وَن گریڈ میں تو ضرور پاس ہوں، اگر ایسا نہیں ہو پاتا، تو وہ بورڈ کی جانب انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ ہمارے لیے ہر شخص کو خوش رکھنا تو ممکن نہیں۔ کیمبرج سسٹم میں بھی تو بہت سے بچّے فیل ہو جاتے ہیں، وہاں والدین بچّوں ہی کو ڈانتے ہیں کہ تم نے ٹھیک سے نہیں پڑھا ہوگا، ہمارے معاملے میں بھی یہی رویّہ اپنانا چاہیے۔
س:پیپرز کی تیاری اور امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے رہے ہیں؟
ج:مجھے اعتراف ہے کہ اِن شعبوں میں ابھی بہت سا کام کرنا ہے۔ ہم نے شفّافیت کے لیے پیپر پیٹرن بھی تبدیل کیا ہے۔ تقریباً دس برس بعد پچھلے برس ماڈل پیپرز بھی متعارف کروائے گئے۔ پھر یہ کہ سوالات کا معیار کچھ اس طرح رکھا جا رہا ہے، جس سے بچّوں میں سوچنے کی صلاحیت پروان چڑھے۔ ایم سی کیوز کے معیار کو بھی بہتر بنایا ہے اور مزید بہتر بنا رہے ہیں۔ ہم نے پیپر پیٹرن پر شہر کے سینئر اساتذہ سے مشاورت کی ہے اور مشاورت کا دائرہ مزید وسیع کر رہے ہیں تاکہ خامیوں کو دُور کیا جا سکے۔ پچھلے برس ہم نے پیپر سیٹنگ اور پیپر اسسمنٹ پر دو ورکشاپس بھی کی تھیں۔
 جہاں تک امتحانی کاپیوں کا معاملہ ہے، تو یاد رکھیے، کاپیوں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، سو مارکنگ کے لیے اساتذہ کی تعداد بھی زیادہ ہونی چاہیے، جو بدقسمتی سے نہیں ہوتی، اسی وجہ سے رزلٹ میں بھی تاخیر ہوجاتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بیش تر اچھے اساتذہ اس عمل میں شریک ہونے سے معذرت کر لیتے ہیں اور وہ خود کو ٹیوشن سینٹرز وغیرہ ہی میں مصروف رکھتے ہیں۔ دراصل، ہم اُنھیں جو معاوضہ آفر کرتے ہیں، وہ اُن کے نزدیک مونگ پھلی کے دانے کے برابر ہوتا ہے اور وہ اس رقم کے عوض اپنا وقت خرچ کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ پھر اس خلاء کو پُر کرنے کے لیے ایسے اساتذہ کی بھی خدمات لینی پڑ جاتی ہے،
جن کی استعداد نسبتاً کم ہوتی ہے۔ ہم اس معاملے میں بھی بہتری لا رہے ہیں۔ پہلے مرحلے میں اساتذہ کی پرانی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی ہے، نئے سرے سے رجسٹریشن کر رہے ہیں اور اچھے اساتذہ کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ پہلے ہمارے پاس ایک ہی امتحانی سینٹر تھا، جو بورڈ آفس کے اندر قائم کیا جاتا تھا، یقیناً وہ ساڑھے تین لاکھ بچّوں کے لیے ناکافی تھا۔
سو، اس سال ہم ہر ضلعے میں امتحانی سینٹر قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جو اساتذہ گڈاپ، ملیر، گلشنِ حدید اور دیگر دُور دراز مقامات سے کاپی چیک کرنے کے لیے بورڈ آفس آتے ہیں، اُنھیں قریب ہی یہ سہولت فراہم کر دی جائے۔ پھر یہ کہ ہم پیپر چیک کرنے کے معاوضے میں بھی خاطر خواہ اضافہ کر رہے ہیں تاکہ اچھے اساتذہ کو بھی اس عمل میں شمولیت پر آمادہ کر سکیں۔
س: نجی اسکولز کے طلبہ کو زیادہ نمبرز کیوں دیے جاتے ہیں؟کیا اُن کا بورڈ سے کوئی مخصوص معاملہ ہوتا ہے؟
ج:نہیں، ایسا نہیں ہے۔ ہم بھی گورنمنٹ اسکولز ہی سے پڑھے ہوئے ہیں، مگر اُس زمانے کے اسکولز بہت اچھے ہوا کرتے تھے۔ اب سرکاری اسکولز اس قدر زبوں حالی کا شکار ہیں کہ وہاں عجیب سی ویرانی نظر آتی ہے۔ کراچی میں صرف سینٹرل ڈسٹرکٹ کے سرکاری اسکولز ہی اچھی حالت میں ہیں، باقی کا حال بہت بُرا ہے، تو بچّے وہاں ایسی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے،
جس کے بل بُوتے پر وہ نجی اسکولز کے طلبہ سے مقابلہ کر سکیں، اسی لیے والدین بھی اپنے بچّوں کو سرکاری اسکولز میں داخل کروانے سے گریز کرتے ہیں۔ دراصل، سرکاری اسکولز میں اساتذہ کی تقسیم انتہائی غیرمساویانہ ہے۔
 کہیں ایک اسکول میں فزکس کے چار، چار اساتذہ ہیں، تو کسی اسکول میں ایک بھی نہیں۔ یہی حال باقی مضامین کا ہے۔ اب اگر اساتذہ ہی نہیں ہوں گے، تو بچّے کیا پڑھیں گے۔ نجی اسکول، چھوٹے ہوں یا بڑے، طلبہ کو ہر سبجیکٹ کا ٹیچر ضرور فراہم کرتے ہیں، خواہ وزیٹنگ ٹیچر ہی کیوں نہ رکھنا پڑے۔ پھر وہاں امتحانات کی تیاری بھی کروائی جاتی ہے۔ بچّوں سے چار، چار بار ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ نظام سرکاری اسکولز میں نہیں ہے، شاید نوکری پکّی ہونے کے بعد ہم کام کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ نیز، سرکاری اسکولز کا انفرااسٹرکچر بھی اچھا نہیں ہے۔
 وہاں کے اساتذہ کی تن خواہیں اچھی ہیں اور اُن میں صلاحیت کی بھی کمی نہیں، بس نظام میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ برس ہم نے سرکاری اسکولز کی حوصلہ افزائی کے لیے10لڑکوں اور10لڑکیوں کو، جن کے نمبر85فی صد سے زاید تھے، ایوارڈز دیے اور اب بھی دیں گے۔ ہم سرکاری اسکولز کے بچّوں کو خاص اہمیت دیتے ہیں، تاہم جب تک وہاں اچھے بچّے نہیں آئیں گے، اچھا رزلٹ بھی نہیں مل سکے گا اور اچھے بچّوں کو لانے کے لیے نظام کو اچھا کرنا پڑے گا۔
س:کیا پوزیشنز میں کسی دبائو یا سفارش کا ہاتھ ہوتا ہے؟
ج: کم ازکم گزشتہ کئی برسوں سے کراچی میٹرک بورڈ پر تو اس طرح کا کوئی الزام نہیں لگا۔ گزشتہ برس جن بچّوں نے پوزیشنز لی تھیں، اُنہوں نے خود میڈیا سے بات کی تھی، جس سے اُن کی اہلیت و صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم اس معاملے میں اس حد تک راز داری برتتے ہیں کہ مجھے بہ حیثیت چیئرمین شام تک علم نہیں تھا کہ کن بچّوں نے پوزیشنز لی ہیں۔
 صبح بتایا گیا کہ فلاں، فلاں اسکول نے پوزیشن لی ہے۔ جب ہم پوزیشن ہولڈر بچّوں کو یہاں لا کر بٹھاتے ہیں، تو اُنھیں یہ تو پتا ہوتا ہے کہ اُنہوں نے پوزیشن لی ہے، مگر کون سی پوزیشن آئی ہے، یہ معلوم نہیں ہوتا۔ ہم اس طرح کے طلبہ کی کاپیاں دو، تین بار چیک کرواتے ہیں، پھر کاپیاں کراس چیک بھی ہوتی ہیں۔
س:امتحانی مراکز کا تعیّن اور نقل مافیا بھی تو ایک بڑا مسئلہ ہے؟
ج: دیکھیں جی، اچھے اسکولز تو اپنی عمارتیں سینٹر بنانے کے لیے نہیں دیتے اور بہت سے ایسے اسکولز بھی ہیں، جو اپنے ہاں سینٹر بنوانا چاہتے ہیں۔ ہمارے امتحانی سینٹرز کی تعداد360کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ ہم زیادہ تر سرکاری اسکولز ہی کو مراکز بناتے ہیں اور کہیں مجبوراً وہ اسکولز بھی لینے پڑ جاتے ہیں، جو خود کو اس کام کے لیے پیش کرتے ہیں۔
 وہ سہولتوں اور سیکیوریٹی کے لحاظ سے اچھے نہیں ہوتے، باہر سے بھی لوگ مداخلت کرتے ہیں، مگر ہماری مجبوری ہے کہ اچھے سینٹرز نہیں ملتے۔ ڈی ایچ اے، صدر، گلشن، ناظم آباد کے بڑے بڑے اسکولز کہتے ہیں، آپ ہمارے بچّے کو کہیں بھی بِٹھا دیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ دراصل وہ اپنے بچّوں کو اس قدر تیار کر دیتے ہیں کہ اُنہیں نقل کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ ان اسکولز نے اپنے طلبہ کو تمام ضروری سہولتیں مہیا کی ہوتی ہیں۔ وہ والدین سے بھی مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور بچّے کی پَل پَل کی خبریں اُنہیں دیتے ہیں۔
نیز، اورنگی، بلدیہ، کیماڑی، گڈاپ میں اسکولز کا حال سب کے سامنے ہے۔ مَیں نے بہ حیثیت چیئرمین بورڈ ہی نہیں، بہ طورِ استاد بھی اس معاملے کو دیکھا ہے۔ وہاں کے پرائیوٹ اسکولز کا حال بھی بُرا ہے، کسی کی فیس500ہے اور کسی کی ایک ہزار۔ اب وہ بچّوں کو کیا سہولتیں دیتے ہوں گے، اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا، ان اسکولز کے بچّے پوری تیاری کے ساتھ امتحان میں شرکت نہیں کرتے اور نقل کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ پھر جو لوگ یہ اسکولز چلا رہے ہیں، جنھوں نے بچّوں سے وعدے کیے ہوتے ہیں اور اُنہیں اگلے سال بھی اسکول چلانا ہوتا ہے، تو وہ نقل وغیرہ کے کاموں میں ملوّث ہوتے ہیں۔
اس سلسلے میں سیکیوریٹی بھی ایک فیکٹر ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں امتحانات بھی اُسی اسپرٹ سے کروانے چاہئیں، جس طرح پی ایس ایل کروائی گئی۔ ہماری پوری مشینری اس کی کام یابی کے لیے متحرّک ہوئی اور سب اداروں نے اس کی کام یابی میں حصّہ ڈالا۔ ہمیں تعلیم کو بھی اسی طرح ترجیح دینا ہو گی۔ امتحانی مراکز پر ایک، دو پولیس اہل کار کھڑے ہوتے ہیں اور اُن کے کردار سے بھی سب واقف ہیں۔ اس بار حکومتِ سندھ نے کہا تھا کہ کُھلے میدانوں میں امتحان کروائے جائیں، تو وہ بورڈ کو سپورٹ کرے گی۔ مگر بات نہیں بن سکی، کیوں کہ حکومت نے ہمیں پیسے نہیں دیے۔
 اس تجویز کا پس منظر اچھا تھا کہ بڑے بڑے میدانوں میں امتحانی مراکز بنائے جائیں، جہاں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہوں، تو نقل کنٹرول کی جا سکے گی، مگر اتنے لاکھ بچّوں کو لانا اور پھر اُن کے لیے فرنیچر وغیرہ کا انتظام کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہم اس تجویز پر مزید کام کر رہے ہیں اور اگلے برس بہت پہلے سے اس کی تیاری شروع کر دیں گے۔
 اصل مسئلہ کمرا اور ٹینٹ نہیں، چیٹنگ ہے۔ اگر امتحانی مرکز میں تیار بچّہ آ رہا ہے، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔ ایکسپو سینٹر میں امتحانات کے انعقاد کی تجویز بھی سامنے آئی تھی، مگر وہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ وہاں کے ایک ہال کا کرایہ یومیہ8لاکھ کے لگ بھگ ہے، پھر یہ کہ وہاں ہم کتنے طلبہ کو بٹھا پائیں گے؟ زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار۔اس کام کے لیے تو نیشنل اسٹیڈیم بھی چھوٹا پڑ جائے گا۔ پھر سیکیوریٹی اور ٹریفک کے مسائل الگ سے ہوں گے۔ اس لیے کسی ایک مقام پر سب طلبہ کو لانا ممکن نہیں۔
س:نقل اور محنت سے پرچے کرنے والوں میں کیسے فرق ہوگا؟کیا اس حوالے سے سینٹرز کی کوئی درجہ بندی کی جاتی ہے؟
ج: آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ گڈاپ وغیرہ کے کسی طالبِ علم نے پوزیشن لی ہو۔ وہاں کے بچّوں کی تعلیمی استعداد اتنی کم ہے کہ وہ دیکھ کر بھی ٹھیک نہیں لکھ سکتے اور بار بار فیل ہوتے ہیں۔
پچھلے برس بھی35ہزار بچّوں کی سپلی آئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر بچّہ اچھا نہیں ہے، تو وہ آگے نہیں بڑھ سکے گا۔البتہ سینٹرز کو بلیک لسٹ کرنے کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔
س:بہت سے بچّے ماحول کے زیرِ اثر اچھا پیپر نہیں کر پاتے؟
ج: بلاشبہ جہاں ٹیچر اور امتحان لینے والوں کے حقوق ہیں، وہیں بچّے کے بھی حقوق ہیں۔ اُسے پیپرز کے لیے اچھا ماحول فراہم کرنا بورڈ کی ذمّے داری ہے تاکہ وہ پڑھ کر آیا ہے، تو کچھ اچھا لکھ سکے۔ چند سو بچّے خراب ہیں،
تو اُن کی وجہ سے ہزاروں بچّوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہیے۔
ہماری خواہش ہے کہ بچّوں کو بہترین سہولتیں فراہم کریں، اسی لیے گزشتہ برس ہم نے سائنس کے پیپرز شام میں لیے تھے تاکہ اچھے اسکولز، امتحانی مراکز کے طور پر مل سکیں، کیوں کہ صبح کے اوقات میں وہ اپنی عمارت ہمیں دینے پر آمادہ نہیں تھے۔
س:امتحانات میں سختی، مگر تدریس زیرو، تو بے چارہ بچّہ کہاں جائے گا؟
ج:بالکل درست بات، ہم صرف امتحان لیتے ہیں، بچّے پڑھ کر کہیں اور سے آتے ہیں اور جب تک تدریسی معاملات درست نہیں ہوں گے، بات نہیں بنے گی۔ہم امتحانی باڈی ہیں، پڑھانے کی بات نہیں کر سکتے، اس کے باوجود ہم نے سیکرٹری تعلیم سے بات کی ہے۔ اُنہیں بتایا ہے کہ کن مضامین میں بچّے فیل ہو رہے ہیں اور کس علاقے کی کیا صُورتِ حال ہے تاکہ تدریسی معاملات میں بہتری آ سکے۔
 اس حوالے سے ہم ایک ورکشاپ بھی ارینج کر رہے ہیں۔ پھر ایک بات اور، ہمیں پُرامید رہنا چاہیے، اسی نظام سے ہمارے ایسے بچّے نکل رہے ہیں، جو صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں، البتہ جہاں اصلاح کی گنجائش ہے، وہاں کام ہونا چاہیے۔ آپ مختلف اسکولز کے دَورے کریں، وہاں بچّوں کو پڑھتے ہی پائیں گے۔
 وہ تین، تین بار امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ پورا نظام تباہ ہو گیا ہے، تعلیم ختم ہو گئی ہے، تو دراصل ہم ان ہزاروں بچّوں کی توہین کر رہے ہوتے ہیں، جو دن، رات پڑھتے ہیں اور ہم اُن والدین کی حوصلہ شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں، جو اپنے بچّوں کی تعلیم کو اولین ترجیح کے طور پر لیتے ہیں۔
س:امتحانی بورڈز پر نگراں کمیٹی بنانے کی کیوں ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟
ج: سچّی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی اتھارٹی بنانے سے کبھی مسائل حل ہوئے ہیں اور نہ آیندہ ہوں گے۔ سینٹرلائزیشن سے تو معاملات بگڑیں گے، ہمیں اپنے معاملات کو مزید ڈی سینٹرلائز کرنا ہو گا۔ ہمارے بورڈ میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی بجلی نہیں جاتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنا نظام تیار رکھا ہوا ہے۔ ہمارے ملازمین کو پینشن، گریجویٹی سب کچھ ملتی ہے۔ آج ملازم ریٹائر ہو، ہفتے، دس دن بعد واجبات اُس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ میڈیکل کی سہولت سندھ حکومت کے ملازمین سے بھی اچھی ہے۔ ہمارے ملازمین شوگر کا ٹیسٹ بھی آغا خان اسپتال سے کرواتے ہیں۔
 اتنا بڑا بورڈ ہونے کے باوجود ہمیں حکومت سے ایک پیسا بھی نہیں ملتا، سارا خرچ ہم خود اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ساڑھے تین سو ملازمین ہیں اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہمارے کسی ملازم کی تن خواہ ایک دن بھی لیٹ ہوئی ہو۔ ہم اپنے پورے سسٹم کو آن لائن کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کئی سو اسکولز کو بریف کیا ہے، اپنا پورٹل بنا لیا ہے۔
 اگلے برس سے اسکولز کو ایڈمٹ کارڈ لینے کے لیے بورڈ نہیں آنا پڑے گا۔ آن لائن سسٹم کے ذریعے خود اپنے ایڈمٹ کارڈز پرنٹ کیے جا سکیں گے۔ جلد ہی نویں کلاس کے انرولمنٹ فارمز وصول کریں گے اور اسکولز کو کہیں گے کہ وہ فارم آن لائن بَھریں۔ پہلے مارکس شیٹس اور پکّے سرٹیفکیٹس عام پرنٹر سے پرنٹ ہوتے تھے، مگر اب ہم پاکستان سیکیوریٹی پرنٹنگ پریس سے چھپوا رہے ہیں، اس میں سیکیوریٹی فیچرز شامل ہیں تاکہ جعل سازی اور دو نمبری کی روک تھام ہو سکے۔ یہ پیپر صرف حکومتِ پاکستان ہی درآمد کر سکتی ہے۔نیز، ہم نے نویں اور دسویں کی مارکس شیٹس میں ڈیٹ آف برتھ کا بھی اضافہ کر دیا ہے تاکہ اگر کوئی غلطی ہو، تو بچّہ اسی مرحلے پر درستی کروا سکے۔
علاوہ ازیں، اگر کوئی بچّہ سات بار کی کوشش میں بھی میٹرک نہ کر پاتا، تو اُسے پورے 10پیپرز دوبارہ دینا پڑتے تھے، تو ہم نے محسوس کیا کہ قانون تو انسانوں کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں، اگر بچّوں کو فائدہ نہیں ہو رہا، تو اس قانون سے کیا فائدہ۔ مَیں سندھ بورڈ کمیٹی کا بھی چیئرمین ہوں، تو ہم سب بورڈز کے چیئرمین نے اس طرح کے بچّوں کو خصوصی اجازت دی کہ وہ صرف وہی پیپرز دیں گے، جن میں فیل ہوئے تھے۔ اس اقدام سے آٹھ، نو ہزار بچّوں کو فائدہ ہوا۔ اب مَیں نے پورے پاکستان کے بورڈز کے لیے یہ قانون منظور کروا دیا ہے۔ یعنی اب میٹرک کے چانس ختم نہیں ہوں گے، چاہے بچّہ کتنی ہی بار فیل کیوں نہ ہو۔
لاڑکانہ بورڈ نے آئی ٹی میں بڑا کام کیا ہے، سکھر بورڈ کی کارکردگی بھی اچھی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بورڈز اپنا کام اچھے طریقے سے کر رہے ہیں اور جہاں کہیں کوئی خامی ہے، اُسے دُور کرنے کے لیے بھی پوری دیانت داری سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا، مَیں سمجھتا ہوں، کسی ریگولیٹری اتھارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اگر پھر بھی بورڈز کے حوالے سے کوئی مسئلہ ہے، تو نگرانی کے لیے سیکرٹری یونی ورسٹی اینڈ بورڈ پہلے سے موجود ہیں،اُن کے ذریعے معاملات میں سدھار کی کوشش کی جانی چاہیے۔
س:ناظمِ امتحانات کے تنازعے کا کیا سبب ہے؟
ج: بلاشبہ ناظمِ امتحانات جیسے اہم اور حسّاس عُہدے پر قائم مقام تقرّریاں کوئی اچھی چیز نہیں اور نہ ہی اس کی حمایت کی جا سکتی ہے، تاہم یہ بھی ذہن میں رہے کہ چیئرمین، کنٹرولر ایگزامینیشن، سیکرٹری اور آڈٹ آفیسر کا تقرّر بورڈ خود نہیں کر سکتا۔ حکومتِ سندھ کا شعبۂ تعلیم، سیکرٹری یونی ورسٹی اینڈ بورڈ کی جانب سے ان اسامیوں کے لیے اشتہار دیتا ہے۔
ماضی میں اشتہار آئے، مگر کچھ لوگ عدالت میں چلے گئے اور حکمِ امتناعی لے آئے۔ اب حکم کی میعاد ختم ہوئی ہے، تو اُمید ہے جلد خالی عُہدوں پر مستقل تعیّناتی ہو جائے گی۔ باقی جہاں تک ترقّیوں کی بات ہے، تو مَیں نے میرٹ ہی پر ترقّیاں دی ہیں۔ البتہ، 2007-08ء میں کچھ ایسی ترقّیاں ہوئیں، جن پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔
س:پیپر آئوٹ کی کیا کہانی ہے؟
ج: دیکھیں پیپر آئوٹ نہیں ہوتا، وہ گیس پیپر ہوتا ہے، جو طلبہ آپس میں شیئر کرتے ہیں۔ چیئرمین کا اس سلسلے میں کوئی اختیار نہیں، پیپرز کی تیاری سے تقسیم تک کے تمام معاملات کنٹرولر امتحانات کی سربراہی میں قائم کمیٹی دیکھتی ہے۔پہلے مرحلے میں پندرہ، بیس اساتذہ انفرادی طور پر پیپرز بناتے ہیں،
گویا ایک مضمون کے 20پیپر بن گئے، پھر کمیٹی اُن میں سے معیار کے لحاظ سے تین پیپر سلیکٹ کرتی ہے، جو سیلڈ ہوتے ہیں۔ پیپر سے ایک روز قبل شام چھے بجے متعلقہ عملہ بورڈ آفس آ جاتا ہے، جن سے موبائل فونز لے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایکسپرٹ بھی ان تین پیپرز میں سے کسی ایک کو منتخب نہیں کر لیتا، بلکہ ایک سوال وہاں، دوسرا کہیں اور سے لے کر نیا پیپر بنایا جاتا ہے۔
 وہ سب لوگ رات کو بورڈ آفس ہی میں رہتے ہیں۔ میٹرک کے پونے دو لاکھ بچّے ہیں، تو پونے دو لاکھ پرچے رات ہی کو چھاپے جاتے ہیں، اُن کی پیکنگ بھی رات ہی کو ہوتی ہے اور صبح8بجے بورڈ سے گاڑیاں نکلتی ہیں، جو دیگر11مراکز تک پیپر پہنچاتی ہیں، جہاں سے سی سی او (سینٹر کنٹرول آفیسرز) اپنے سینٹر کے پرچے وصول کرتے ہیں۔ اس پراسیس میں سوا نو بج جاتے ہیں، اسی وجہ سے بعض اوقات پیپر تاخیر سے شروع ہوتا ہے۔
یوں یہ پیپر پونے دو لاکھ طلبہ اور پندرہ بیس ہزار اساتذہ کے ہاتھوں میں پہنچ جاتا ہے، یعنی اب اس کی سیکریسی ختم ہو گئی۔ ہاں، اگر پیپر تقسیم سے پہلے سامنے آ جائے، تو وہ واقعی سنگین معاملہ ہے، لیکن اس طرح کے واقعات کم از کم اب تو نہیں ہو رہے۔
س:آپ پر دبائو تو بہت ہوگا؟
ج: الحمدللہ، یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا لیول بہت چھوٹا ہے یعنی میٹرک ہے، اس لیے شاید بڑے لوگ ہمیں اہمیت نہیں دیتے۔
 پھر دبائو اس لیے بھی نہیں آتا کہ ہم سارے چیئرمین میرٹ بیسڈ ہیں، کسی کی سفارش پر یہاں تک نہیں پہنچے۔ کچھ ہوا تو اپنے ڈیپارٹمنٹ میں واپس چلا جاؤں گا، مگر کسی کی غیرقانونی بات قبول نہیں کروں گا۔
 وزیراعلیٰ یا دیگر اعلیٰ حکام اور وزراء کی جانب سے کبھی کوئی دبائو نہیں ڈالا گیا۔
س:مستقبل کے کیا اہداف ہیں؟
ج: میرا پہلا اور بنیادی ہدف یہ ہے کہ پورا نظام آن لائن ہو جائے اور کسی کو فارم جمع کروانے کے لیے بورڈ کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ ہم اگلے برس ایم او آر ٹیکنیک متعارف کروا دیں گے تاکہ ایم سی کیوز کا پیپر اسکین ہو جائے اور انسانی غلطیوں کا امکان نہ رہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ ای مارکنگ کو اپنے بورڈ میں متعارف کروائیں، جیسے کیمبرج سسٹم وغیرہ میں ہوتی ہے۔
 ہمارے طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے بعض مالی اور انتظامی معاملات میں مشکلات درپیش آتی ہیں، لیکن ہم مسلسل بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ نیز، ہم پیپرز کی مارکنگ کے لیے بڑے ہالز بنانا چاہتے ہیں، مگر ہماری عمارت بہت چھوٹی اور قدیم ہے، تو اس حوالے سے بھی کئی منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔
حوالہ: یہ انٹرویو روزنامہ جنگ کراچی ایڈیشن میں مورخہ سات اپریل 2019 کو شائع ہوا