Author Topic: بہاول پور مخالف خیالات کی بنیاد پر شاگرد کے ہاتھوں استاد قتل  (Read 1247 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
بہاول پور مخالف خیالات کی بنیاد پر شاگرد کے ہاتھوں استاد قتل
 پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر بہاولپور میں بدھ کے روز ایک طالب علم خطیب حسین نے مبینہ طور پر اپنے استاد خالد حمید کو قتل کیا ہے، اس قتل کی وجہ انھوں نے اپنے استاد کے مذہب مخالف سوچ قرار دی ہے۔
بہاولپور کے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کے طالب علم خطیب حسین کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ ڈی پی او دفتر کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کی ایف آئی آر کاٹنے کے لیے انہیں درخواست موصول ہو گئی ہے اور آج ہی اس قتل کا مقدمہ خالد حمید کے بیٹے کی مدعیت میں درج کیا جائے گا۔
دوسری جانب بہاولپور میں ریجنل پولیس آفیسر کے ترجمان ریحان گیلانی نے بی بی سی کو بتایا کہ طالب علم خطیب حسین نے آج صبح چھریوں کے وار کر کے اپنے پروفیسر کو قتل کیا ہے جس کے بعد انہیں موقع سے ہی گرفتار کر لیا گیا۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ کالج میں رواں ہفتے منعقد ہونے والی ایک الوداعی پارٹی کی مخالفت کر رہے تھے۔
نامہ نگار فرحت جاوید کے مطابق پولیس نے بتایا کے خالد حمید ایس ای کالج کے شعبہ انگریزی کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے اور جس وقت ان پر حملہ ہوا وہ کالج میں ہی موجود تھے۔ واقعے کے بعد وہاں موجود لوگوں نے طالب علم کو پکڑ لیا اور ان کے بیان کی ویڈیو بھی بنائی۔
بہاولپور کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر امیر تیمور نے واقعے کی تحقیقات کے لیے ٹیم تشکیل دی ہے، جو قتل کے محرکات کی تحقیق کرے گی اور دیکھے گی کہ آیا اس قتل میں مزید افراد ملوث ہیں یا نہیں۔
اسی حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک خط بھی گردش کر رہا ہے جس میں کسی طالب علم کا نام لکھے بغیر ڈپٹی کمشنر کو درخواست دی گئی ہے کہ کالج میں سالانہ فن فیئر کی ریہرسل جاری ہے، جسے رکوایا جائے۔ اس فن فیئر کو غیر اسلامی کہا گیا ہے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ایسا کوئی خط ڈی سی دفتر میں موصول نہیں ہوا اور معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
خالد حمید کے بھائی راشد حمید نے بی بی سی سے بات کی اور کہا کہ دو دن پہلے بھی اسے لڑکے نے ڈی سی کو خط لکھا کہ کالج میں فنکشن نہیں ہونا چاہییے اور میرے بھائی کو دھمکیاں بھی دیں۔ لیکن انھوں نے گھر میں کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا تھا۔ آج صبح یہ لڑکا ان کے دفتر میں داخل ہوا اور ان کی گردن پکڑ کر ان کے سر پر چاقو سے کئی وار کیے۔ وہیں طالبات کا ایک گروپ تھا انہوں نے شور شرابا کیا اور دیگر لوگوں نے اس لڑکے کو پکڑ لیا۔
انھوں نے کہا کہ خالد حمید ایک انتہائی شریف انسان تھے جو مذہبی اور نماز کے پابند تھے، سارا علاقہ گواہ ہے کہ وہ کسی لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتے تھے اور نہایت دھیمی شخصیت کے مالک تھے۔
دوسری جانب خالد حمید کے رشتہ دار اور قریبی دوست زاہد علی خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے جو معاشرے میں پھیلتی عدم برداشت کی وجہ سے اس شخص کے ساتھ پیش آیا جو کبھی کسی سے بلند آواز میں بات نہیں کرتے تھے، وہ نہایت تحمل مزاج، رحمدل اور کالج کے طلبا و طالبات میں نہایت مقبول استاد تھے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو جامعہ کے طلبہ نے ان پر توہین مذہب کا الزام لگا کر قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے کچھ ہی عرصے بعد چارسدہ میں اسلامیہ پبلک کالج کے ایک طالب علم نے اپنے پرنسپل پر مبینہ طور پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں قتل کر دیا تھا۔
جبکہ میں پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں 2016 میں پندرہ سالہ لڑکے نے اس وقت اپنا ہاتھ کاٹ دیا جب انہیں لگا کہ انھوں نے توہین رسالت کی ہے۔
حوالہ: یہ خبر بی بی سی اردو ویب سائٹ پر مورخہ 20 مارچ 2019کو شائع ہوئی