Author Topic: مواخذہٴ، معافی، مکافات عمل,,,,چوراہا…حسن نثار(شکریہ جنگ اخبار)  (Read 3720 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
میں نے یہ مضمون جنگ اخبار کی ویب سائٹ سے کاپی کیاہے ۔ نوید کے لیے
مواخذہٴ، معافی، مکافات عمل,,,,چوراہا…حسن نثار
   
ہمارے اردگرد کیا ہورہا ہے؟اور کرنے والے چاہتے کیا ہیں؟ لیفٹیننٹ جنرل مشتاق حافظ قرآن تھے، پانچ وقت کے نمازی تھے، انتہائی پرہیزگار، عمدہ انسان، سیلف میڈ اور عمر صرف 54 سال، وہ بھی وحشت ، بربریت اور جنون کاشکار ہوگئے۔ بمبار کی عمر15 تا17سال تھی اور میں چشم تصور سے اس شخص کو دیکھ رہا ہوں جس نے یہ بمبار تیار کیا۔ اس ”موت مینو فیکچرر“ کا حلیہ میں دیکھ رہا ہوں اور برین واش کرنے والی سب باتیں بھی گوش تصور سے سن رہا ہوں جس نے اپنے کسی فرزند کی بجائے کسی ضرورت مند کو اس مقدس مشن کے لئے بھیجا۔ ادھر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاج جاری ہے اور ناروے کے سفیر کوملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ مغوی سفیر طارق عزیز الدین کی بازیابی کے لئے جھنڈا خیل قبیلے کو وارننگ دیدی گئی ہے۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے ہنی مون کا حال یہ ہے کہ ”ہنی“ تیزی سے چاٹا جارہا ہے اور”مون“ کو گرہن لگنے والا ہے کیونکہ پیپلز پارٹی نے توقعات کے عین مطابق ہینڈ ز اپ کرکے صدر مشرف کے ساتھ ”ورکنگ ریلیشن شپ“ کااعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ دو تہائی نہ ہونے کی وجہ سے ”مواخذہ“ممکن نہیں۔ ادھر نواز شریف نے امریکی سفیر کوصاف کہہ دیا ہے کہ”میں مشرف کی حمایت نہیں کرسکتا“یعنی وہ ورکنگ ریلیشن شپ چاہتے ہیں اور یہ حمایت کرنے سے قاصر اور اس دلچسپ خبر کا تو واقعی جواب نہیں کہ مشہور زمانہ ”میثاق جمہوریت“ پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں کے لئے ہی سانپ کے منہ میں چھپکلی بن گیا ہے کیونکہ میثاق جمہوریت پر عمل درآمد کی صورت میں مرکز سے لے کر پنجاب تک میں اپوزیشن کو تمام اہم امور میں مشاورت کے لئے شامل کرنا پڑے گا۔ محترمہ اور میاں کے درمیان طے پانے والا یہ ”تاریخی معاہدہ“ ”ویژن کی کمی“ کے سبب صرف یہ سوچ کر طے کیا گیا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے ایک حکومت جبکہ دوسری اپوزیشن میں ہوگی لیکن عوام نے حالیہ الیکشن میں ایسی کھچڑی تیار کردی ہے کہ اپوزیشن میں صدر مشرف کے حمایتی ہیں تو کیا اب ان میں اتنا حوصلہ ہے کہ اہم امور پر اپوزیشن کے ساتھ مشاورت کریں؟ایک روز قبل عبدالرؤف فیم’جیو “ کے پاپولر پروگرام”50 منٹ“ میں میں نے کسی خاص حوالہ سے عرض کیا کہ اس وقت ملک میں اوسط درجہ کی قیادتیں ہیں۔ اس پر ”اوسط درجہ“ کو نہ سمجھتے ہوئے میرے ایک عزیز نے کہا کہ ”سیاست ہی نہیں صحافت میں بھی بونے ہیں“ ۔ سچ یہ ہے کہ صحافت میں بونے بونے ہی رہتے ہیں ،قد آور کبھی نہیں ہوسکتے جبکہ ہماری سیاست میں دولت، وارثت ، فوج کی آشیر باد یا کسی حادثہ کے سبب بھی بونے جن یا دیو بن جاتے ہیں۔ ماضی میں جو ”فاؤل پلے“پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں چلتا رہا اب کچھ اور کے درمیان چل رہا ہے تو کوئی کس طرح مان لے کہ ہماری سیاسی قیادتیں بالغ اور قد آور ہوگئی ہیں……ضروری ہے کہ عالی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کی خاطر آپس میں عام معافی کا اعلان کرکے نئے سفر کا آغاز کریں کیونکہ کہانی سب کی ایک جیسی ہے یعنی ”اسبغول تے کچھ ناں پھرول“…کسی کے پیچھے سکندر مرزا اور جنرل ایوب ہے تو کسی کے پیچھے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف…گھر کی گھر میں ہی رہ جائے تو اچھا ہے کہ اس کے علاوہ عوام کی باری کبھی نہیں آئے گی۔ میاں نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ظلم، زیادتی اور ناجائز تھا۔ اسی لئے مجھ سمیت لکھنے والوں نے سات سال اس پر مسلسل احتجاج کیا۔”انجام بخیرتو کام بخیر“ All is well that ends wellوالی بات ہے…ہم تو اس کے عاشق اور ماننے والے اور حقیر سے امتی ہیں جس نے حضرت حمزہ کو شہید کرنے اور ان کا کلیجہ چبانے والی کو بھی معاف کردیا تھا…کہو معاف کیا، اس ملک اور اس کے اجڑے پجڑے ، بھوکے ننگے آٹا ڈھونڈتے عوام کی خاطر معاف کیا۔ رب العزت کی قسم!مجھے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں کسی سے رتی برابر دلچسپی نہیں”’ہنی مون“ منائیں یا لڑیں مریں۔ ایک دوسرے کو معاف کریں یا صاف کریں مجھے کچھ نہیں لینا دینا لیکن یہ سوچ کر دل کڑھتا اور روتا ہے کہ اگر یہ رواداری کے راستے پر نہ آئے تو عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی، اگر انہیں عوام کے ساتھ تھوڑی بہت ہمدردی بھی ہے تو ان سب کو اپنی انائیں دفن کرناہوں گی۔ میں صدر مشرف کا نہ پہلے مداح تھا نہ اب ہوں اور یہ لکھتے ہوئے خود مجھے بھی عجیب سا لگتا ہے لیکن میں آنے والے دنوں میں عوام کے حشر کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں صاحب سے کہوں گا…بھول جائیں، معاف کردیں اور ایک مقبول سیاستدان کی سطح سے اٹھ کر چشم زدن میں سٹیٹسمین بن جائیں۔ عوام کا حال کیا ہے؟کیا ہونے والا ہے؟ بین الاقوامی طور پر اپنی اصل حالت کا اندازہ لگانا ہو تو ڈاکٹر شوکت کے خط سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ ”آپ نے ایک گزشتہ کالم میں سوال کیا کہ عوام کو کیا ملا؟تو بھائی!مزید ذلت، رسوائی، مہنگائی، بدامنی ہی ان کا مقدر لگتی ہے کیونکہ جوان کے لئے کچھ کرسکتے ہیں انہیں حسب معمول اپنی اپنی پڑی ہے۔ دوسری طرف عوام کا بھی جواب نہیں جو بقول شفیق الرحمن ہفتہ میں سات دن چھٹی کرتے ہیں۔ اتوار تو ہمارا یوم اقرار ہے جب ہم مان بھی لیتے ہیں کہ آج چھٹی ہے۔ آٹے کے لئے لائن میں لگے کچھ لوگوں کو غوری میزائل پر خوش ہوتے میں نے خود دیکھا ہے۔ ایک گھنٹہ میں پانچ سو کے حساب سے آبادی بڑھانے والے ہم لوگ بطور سلاد استعمال ہوئے؟معرکہ مارتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اربوں ڈالروں کے سٹنگر ہمیں ریوڑیوں کی طرح دینے والا کیا ہماری خاطر ایسا کررہا ہے پھر ہمیں فرنٹ لائن اتحادی کا خطاب بخش کر 80 کروڑ ڈالر ہر ماہ کس کھاتے میں؟وہ زمانے گئے جب نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی کے دعوے داغتے تھے۔ اب تو ڈیفنس اور بلیو ایریا کی زمین کا بھاؤ بھی مین ہٹن نیویارک کے برابر ہے تو کافی سمجھو…آزادی خود مختاری چاٹنی ہے یا کون آئس کریم؟ہمہ وقت حالت جنگ میں رہنے کا نتیجہ ہے کہ ہم نفسیاتی طمانیت تک سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نہ امن نہ آٹا، اک ایٹم بم ہے تو سمجھ لیں کہ سارے اثاثے اس کے مختلف سیٹلائٹس کے سامنے ہیں۔ ابھی کل میرے گیارہ سالہ بیٹے نے گوگل کمپیوٹر نیٹ ورک پر مجھے اپنے شہر لائل پور پھر گھنٹہ گھر پھر پیپلز کالونی اور پھر خود اپنے گھر کی سیر کرائی۔ آپ کی قسم!اب تو غسل خانہ میں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا اور حجاب محسوس ہوتا ہے لیکن ہمارے قائدین ابھی تک”ورکنگ ریلیشن شپ“ مواخذہ حکومت سازی میں پھنسے ہوئے ہیں اور پھنسے رہیں گے۔ ادھر ڈوبے ادھر نکلے…ایسے میں عوام کو کیا ملنا؟ رہ گئے وہ احمق جو پوچھتے ہیں کہ امریکی ٹیکنالوجی اسامہ کو کیوں نہیں ڈھونڈ سکی؟ تو انہیں خبر ہو کہ وہ صرف انہیں ڈھونڈتے ہیں جنہیں ڈھونڈنا ہو“ قارئین! ہمارے داخلی اور خارجی …اندرونی بیرونی…ملکی و بین الاقوامی حالات کا تقاضا ہے کہ مواخذے چھوڑ کر معافیوں کی طرف آئیں اور سب کچھ مکافات عمل پر چھوڑدیں ورنہ …پھر مکافات عمل کے لئے تیار رہیں۔