Author Topic: انڈین ڈیفنس ریویو میں پاکستان مخالف آرٹیکل ” ٹائم ٹو ڈیوائڈ پاکستان“  (Read 1697 times)

Offline گل

  • Good Member Group
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 1045
  • My Points +1/-2
  • Gender: Male

انڈین ڈیفنس ریویو میں پاکستان مخالف آرٹیکل  ” ٹائم ٹو ڈیوائڈ پاکستان“
   
اسلام آباد ( رپورٹ: … صالح ظافر) بھارتی جریدے انڈین ڈیفنس ریویو نے انٹرنیٹ پر اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں ایک انتہائی قابل اعتراض آرٹیکل جاری کیا ہے جس میں پاکستان کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ”ٹائم ٹو ڈیوائڈ پاکستان“ کے عنوان سے شائع ہونیوالے آرٹیکل کے مصنّف وجے کمار ایس کاسی ہیں۔ آرٹیکل کیساتھ نقشے میں آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے ساتھ دکھایا گیا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کو کسی حدبندی کے بغیر بھارت کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ دفتر خارجہ نے اس آرٹیکل کو مسترد کرتے ہوئے اسے فالتو چیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تبصرے کے قابل بھی نہیں ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بھارتی پالیسی سازوں کو اپنے شیطانی منصوبوں اور سازشوں کو چھپانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انڈین ڈیفنس ریویو بھارتی وزارت دفاع کا ترجمان معلوم ہوتا ہے۔

 آرٹیکل کچھ اس طرح سے شروع ہوتا ہے: ”یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر لوگ دہشت گردی پر کیوں مجبور ہوتے ہیں۔ اہم ترین وجوہات میں سے ایک، معاشی ناکامی، ایسا بہانہ نہیں کہ اس کی وجہ سے دہشت کے راستے کا انتخاب کیا جائے۔ ایسے کئی غریب ترین ممالک اور معاشرے ہیں جو عدم تشدد اور پرامن طریقے سے بہتر مستقبل کیلئے کوشاں ہیں۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کے ایک نمایاں حلقے نے غلط راہ اختیار کرلی ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان میں ایک ادارے کی شکل اختیار کرلی ہے اور اسے وسیع حمایت حاصل ہے۔ اس کی فوج اور انٹیلی جنس دہشت گردی کو اسٹریٹجک ہتھیار سمجھتی ہیں۔ ہر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستانی حکومت بڑی چالاکی سے بین الاقوامی دباؤ سے بچ نکلتی ہے اور اس مقصد کیلئے وہ اس وقت تک عارضی طور پر دہشت گردی کیخلاف کارروائی کرتی ہے جب تک معاملے سے توجہ ہٹ نہ جائے۔ پاکستان نے کبھی اس لعنت کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا۔ نتیجتاً، یہ چھوٹا خطہ، کرہٴ ارض کا انتہائی خطرناک ترین علاقہ بن گیا ہے“۔

آرٹیکل میں ایک اور موقع پر کہا گیا ہے، ”پاکستان کو 1947ء میں انگریزوں نے بنایا اور وہ برصغیر سے فوراً روانہ ہوگئے۔ پاکستان کی سرحدیں نامکمل طور پر وضع کی گئی ہیں اور ریاست کافی حد تک غیر مستحکم ہے۔ ڈیورینڈ لائن، کشمیر، سر کریک اور سیاچن غلط طریقوں سے وضع کردہ سرحدوں کا نتیجہ ہیں۔ ماضی کے تجربات سے، یہ واضح ہے کہ پاک فوج یا حکومت پر بھروسا کرنا کہ ان کی سوچ تبدیل ہوجائے گی، بے فائدہ ہے۔ اس بات پر یقین کرنا کہ فلسطین یا کشمیر جیسے مسائل کے حل ہونے سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی ایک اور تصوراتی سوچ ہے۔ دہشت گردی جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ایک طویل المدتی حل تلاش کرنا پڑے گا چاہے اس کا مطلب پاکستان کی تقسیم ہی کیوں نہ ہو۔ جب تک پاکستان مکمل طور پر دہشت گردی کے انفرا اسٹرکچر کو ختم نہیں کردیتا، اس وقت تک تقسیم کے آپشن پر سوچنے کی بہترین وجہ یہ ہے کہ اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں، چاہے ماہرین کچھ بھی کہیں۔ تصور کریں کہ اگر بنگلادیش بھی پاکستان کیساتھ ہوتا تو پاکستان کس قدر خطرناک ہوتا۔ دہشت گرد پورے جنوبی ایشیا پر کنٹرول حاصل کرچکے ہوتے۔ اگر بھارت 1971ء میں بنگلادیش کے قیام میں مدد نہ کرتا تو اس وقت بھارت مایوس کن پوزیشن کا سامنا کر رہا ہوتا اور اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد کر رہا ہوتا۔ ہمیں بھارت اور پوری دنیا میں اپنے بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان کی ساخت کو دوبارہ بنانے کے منصوبے پر عمل کرنا نہ صرف تکلیف دہ اور انسانی جانوں کے نقصان کے حوالے سے انتہائی مہنگا خیال ہوگا بلکہ اس سے معاشی نقصان بھی بہت ہوگا۔ ہمیں یہ قیمت ادا کرنے کیلئے تیار ہونا چاہئے تاکہ ہم اپنے بچوں کو بہتر مستقبل دے سکیں۔ اس میں بین الاقوامی تعاون اور تمام جزیات کا خیال رکھ کر کی جانیوالی منصوبہ بندی شامل ہونا ضروری ہے۔ اب جاگنے کا وقت آچکا ہے اور مقصد سے بھٹکنا نہیں چاہئے“۔

شکریہ جنگ