PakStudy :Yours Study Matters

Education News / Students Organisation => Current Affair => Topic started by: iram on September 05, 2013, 02:11:20 PM

Title: نیٹو افواج کا سامان، پاکستانی بازاروں میں
Post by: iram on September 05, 2013, 02:11:20 PM
نیٹو افواج کا سامان، پاکستانی بازاروں میں

افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے آغاز کے ساتھ ہی پشاور کی مارکیٹوں میں امریکی ساز و سامان بکنا شروع ہوگیا ہے۔ وہاں سے جدید اسلحے سے لےکر آرائش و زیبائش اور خورد ونوش کا غیر ملکی سامان خریدا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی کے سرحد پر واقع ’کارخانو مارکیٹ‘ کے نام سے غیر ملکی اشیاءکے لیے مشہور ستارہ مارکیٹ کی دو سو سے زیادہ دکانیں غیر ملکی اشیاء سے بھری پڑی ہیں۔ اس مارکیٹ میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ سنائپر گن کی ہے، جس کے لیے لوگ ایڈوانس میں پیسے دیتے ہیں۔ یہ سنائپر بندوق زیادہ تر قبائلی علاقوں میں متحارب گروپ اور عسکریت پسند خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بازار سے کلاشنکوف، نائٹ ویژن گلاسز، لیزرڈ گنز، جدید ترین پستول، چاقو، فوجی یونیفارم، سلیپنگ بیگز، اسلحے کے کورز، لیپ ٹاپس،بیٹریز،کیمرے اور غیر ملکی ادویات خریدی جا سکتی ہیں۔

اگرچہ اسلحے کی خرید و فروخت کھلے عام نہیں لیکن دلچسپی رکھنے والوں کو یہ چیز یں آسانی سے مل جاتی ہیں۔ جب مارکیٹ کے قریب ہی واقع سیکورٹی چیک پوسٹ میں موجود اہلکاروں سے اس بارے میں پوچھا گیا تو پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے ڈہ ڈبلیو کو بتایا، ’’یہاں کوئی غیرقانونی خرید و فروخت نہیں ہوتی، جو چیزیں یہاں فروخت کی جاتی ہیں وہ چائنہ ساخت کی ہیں اور یہ ملک بھر میں موجود ہیں۔ جہاں تک اسلحے کی بات ہے تو اس پوری مارکیٹ میں اسلحے کی ایک بھی دکان نہیں، البتہ چند قدم کے فاصلے پر قبائلی علاقہ ہے، جہاں صوبائی حکومت کا عمل دخل نہیں اور وہاں کھلے عام اسلحے کا کاروبار ہوتا ہے لیکن وہ اسلحہ کوئی یہاں نہیں لاسکتا۔‘‘

اس موقف کے برعکس پاک افغان بزنس فورم کے ڈائریکٹر ضیاءالحق سرحدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’یہ سارا اسلحہ اور بارود اسی راستے سے پاکستان میں پہنچایا جاتا ہے۔ آج پاکستان میں دہشت گردی اور بدامنی کادور دورہ ہے۔ افغانستان سے آنے یا وہاں جانیوالے ٹرکوں کی مانیٹرنگ تسلی بخش نہیں، کسی کو یہ پتہ نہیں علم کہ ان ٹرکوں میں کیا لایا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ متعدد بار ان ٹرکوں سے اسلحہ اور بارود برآمد بھی کیا گیا۔ دس سال سے پاکستانی ادارے اس نقل و حمل کی موثرنگرانی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔“

پشاور کی کارخانو مارکیٹ میں ان اشیاءکی مانگ میں روز بہ روز اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کی وجہ سے یہاں پہنچنے والی اشیاءکی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ بھی ہوتا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ عرصہ قبل، جس سنائپر گن کی قیمت ڈیرھ لاکھ روپے تھی اب بڑھ کر نو لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے۔

مارکیٹ میں موجود دیگر غیر ملکی اشیاءکی قیمتیں عام مارکیٹ کے مقابلے بہت کم ہیں۔ ایک امریکی شوز کی قیمت تین ہزار روپے ہے اور سفری بیگ پانچ سو سے ڈھائی ہزار روپے تک ملتا ہے۔ مقامی دکانداروں کا کہنا ہے کہ یہ چوری کا سامان نہیں ہے بلکہ اس پر کسٹم اور ڈیوٹی وغیرہ نہیں دی جاتی۔ ڈی ڈبلیو کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق جرائم پیشہ افراد یا پھر عسکریت پسندوں کی طرف سے لوٹے جانیوالے کنٹینرز کا سامامان بھی اس مارکیٹ میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈرائیور اور دیگر عملہ بھی کنٹینرز سے سامان چوری کرتے ہوئے اسے بیچ دیتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق افغانستان سے اسلحہ سڑک کی بجائے دشوار گزار پہاڑی راستوں کے ذریعے قبائلی علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے، جہاں سے ملک کے دیگر بڑے شہروں تک منتقل کر دیا جاتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ذرائع کے مطابق مارکیٹ میں خریداری میں مصروف زیادہ تر لوگوں کا تعلق پنجاب سے ہوتا ہے، جو سفری بیگز، اشیائے خورد و نوش اور الیکٹرانکس مصنوعات وغیرہ خریدتے ہیں۔ افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ امریکی اور دیگر غیر ملکی افواج کے علاوہ بڑی تعداد میں غیر ملکی تعمیراتی ادارے، غیر سرکاری تنظیمیں اور فلاحی ادارے کام کررہے ہیں۔ انخلاء کے آغاز کے ساتھ ہی یہ ادارے اپنے زیر استعمال سامان کو بھی مقامی سطح پر بیچ رہے ہیں۔ جب ان اشیاء کے بارے میں مقامی دکانداروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ان اشیاء کی خریداری کے لئے پیشگی ادائیگی کرتے ہیں۔

ایک مقامی دکاندار عجب گل کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آج کل سکریپ اور استعمال شدہ اشیاء کی خرید و فروخت کا کاروبار عروج پر ہے۔ غیر ملکیوں کے زیر استعمال یہ سامان افغان ٹھیکیدار خرید کر اسے پاکستانی مارکیٹوں میں پہنچا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس میں کنٹینرز سے چوری شدہ سامان بھی موجود ہوتا ہے۔ اس مارکیٹ کے عنایت خان کا کہنا تھا کہ یہاں زیادہ تر چائنہ کا بنا ہوا سامان ہے، جسے افغان تاجر امریکی اور نیٹو کے سامان کے نام پر فروخت کرتے ہیں جبکہ امریکی اور اتحادیوں کے اہلکاروں کے زیر استعمال سامان میں بھی زیادہ تر چائنہ کا بنا ہوا ہے لیکن اس پر امریکی اور دیگر مغربی ممالک کا لیبل لگایا گیا ہے، جو یہاں ہاتھوں ہاتھ بکتا ہے۔
http://www.dw.de/%D9%86%DB%8C%D9%B9%D9%88-%D8%A7%D9%81%D9%88%D8%A7%D8%AC-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%86-%D9%BE%D8%A7%DA%A9%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%B2%D8%A7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%D9%85%DB%8C%DA%BA/a-17062712