Author Topic: کونٹنٹ کرئیٹرز۔۔ دنیا بدل سکتے ہیں  (Read 494 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study

کونٹنٹ کرئیٹرز۔۔ دنیا بدل سکتے ہیں
(قاسم علی شاہ)

ان تینوں کی آپس میں گہری دوستی تھی۔گزشتہ شام وہ ایک تقریب میں تھے جہاں انھوں نے خوب انجوائے کیااور اس کی ریکارڈنگ بھی کی ۔یہ ریکارڈنگ ان میں سے ایک دوست کے پاس تھی ، وہ باقی دوستوں کو بھی بھیجناچاہ رہا تھالیکن کوشش کے باوجود بھی وہ بھیجنے میں ناکام رہا۔چند دنوں بعد اس کو پھراس طرح کی ایک مشکل پیش آئی ۔وہ ایک ویڈیو سر چ کرنا چاہ رہاتھا جس کی ان دنوں کافی شہرت پھیل چکی تھی لیکن کوشش کے باوجود وہ ایک بار پھر ناکام رہا۔تب اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ ایک ایسی ویب سائٹ بنانی چاہیے جس پر ویڈیو اپ لوڈ کی جاسکے اور اس کوکوئی بھی شخص کسی بھی وقت دیکھ سکے۔تینوں دوستوں نے مل کر اس پر کام شروع کیا۔کافی محنت کے بعدانھوں نے ایک ویب سائٹ بنائی جو وقت کے ساتھ بہترہوتی گئی اور آج وہ دنیا کی سب سے بڑی ویڈیوسائٹ بن چکی ہے۔YouTube لوگوں میں مقبول ہوناشروع ہوا اور اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے 2007ء میں Googleنے اس کو خریدلیااور پھر تو ا س کی ترقی کو گویا پر لگ گئے۔گوگل نے سوچاکہ اس ویب سائٹ پر سب سے اہم چیز Contentہے، اسی کی بدولت یہاں ٹریفک آسکتی ہے ۔چنانچہ اس نے Content Creatorsکے ساتھ رابطے شروع کیے، انھیں اپنا سٹوڈیوپیش کرتے ہوئے آفر دی کہ آپ آئیں اور اپنی ریکارڈنگ یہاں کریں ۔اس کے ساتھ ساتھ گوگل نے Content Creatorsکواپ گریڈ کرنے کے لیے ٹریننگ پروگرامز بھی شروع کیے۔نتیجہ بڑاشاندار نکلا اور یوٹیوب پرایسا کونٹنٹ آنے لگا جو منفرد اور دلچسپی سے بھرپور تھا۔ ناظرین کی ایک بڑی تعداد یوٹیوب پرآناشروع ہوئی۔ایسے میں کاروباری دماغ بھی متحرک ہوگیا ۔ان افراد نے جب لوگوں کی ایک کثیر تعداد یہاں دیکھی تو اپنی پراڈکٹ کی مارکیٹنگ کاسوچا۔ چنانچہ ایک ہی پلیٹ فارم پر چار لوگوں کو فائدہ ملنے لگا۔ناظرین اپنی ضرورت کا کونٹنٹ دیکھ کر فائدہ اٹھانے لگے۔پراڈکٹ کااشتہار چلنے سے بزنس مین کاکاروبار چل پڑا۔یوٹیوب کو فیس کی مدمیں بھرپور منافع ملنے لگا جس میں اس نے Content Creatorsکو بھی شریک کیااوریوں یہ دنیا کا دوسرا بڑاسرچ انجن بن گیا۔آج یوٹیوب پر 2.6بلین سے زیادہ ایکٹیوUsers ہیں۔دنیا کی ایک چوتھائی آبادی یوٹیوب پر ہے اور روزانہ اس پر جوویڈیوز اپ لوڈ ہوتی ہیں،ان کامجموعی دورانیہ 72,0000 منٹس ہیں۔گوگل کے سی ای او نے دعویٰ کیا ہے کہ یوٹیوب بہت جلد TVکی جگہ لے لے گااور لوگ گھروں میں یوٹیوب ہی استعمال کریں گے۔

زمانہ قدیم سے آج تک ابلاغ کے جتنے بھی ذرائع اخبار ، میگزین ، کتاب ، ریڈیو ، ٹی وی یا سوشل میڈیاکی صورت میں رہے ہیں ، ان سب کی بنیاد ایک ہی چیز پر ہے اور وہ ہے کونٹنٹ ۔ اگر کونٹنٹ معیاری ہو تو کتاب بیسٹ سیلرکا اعزاز پالیتی ہے ۔اخبار اور میگزین ہاتھوں ہاتھ بک جاتاہے۔ ریڈیو اورٹی وی شوزHighest TRP حاصل کرلیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایسا کونٹنٹ لمحوں میں وائرل ہوجاتاہے۔ہر کونٹنٹ کے پیچھے ایکCreator ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کاکونٹنٹ کرئیٹر ’’Social Media Influencer‘‘ بن چکاہے اور معاشرے کی ایک کثیر تعداد کو اپنے کونٹنٹ سے متاثر کررہا ہے۔آج یہ جس چیز کے بارے میں بات کرتاہے ، معاشرہ اس کوسنتاہے ،اس کو قبول کرتاہے اورپھر وہ لوگوں کی محفلوں کا موضوع بن جاتاہے ۔

حالیہ ایک سروے کے مطابق سوشل میڈیا پر چلنے والے اشتہارات پر لوگ اس قدر فیڈ بیک نہیں دیتے جس قدرSocial Media Influencer کی بات پر ، چنانچہ 92فی صد خریدار ایسے ہیں جو ایڈورٹائزمنٹ کمپنی اور معروف سیلیبریٹیز کی تعریفوں کو خاطر میں ہی نہیں لاتے بلکہ اپنے پسندیدہ Content Creatorکودیکھتے ہیں اور جب وہ کسی چیز کے بارے میں بتادے کہ یہ بہترین ہے تووہ دھڑادھڑ خریدنا شروع کرلیتے ہیں۔البتہ ایک افسوس ناک امر یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے لیے کوئی اخلاقی اور قانونی ضابطہ کار موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات ایسا کونٹنٹ بھی نشرہوجاتاہے جو کہ اخلاقیات اور قانون سے متصادم ہوتاہے اور اس کی وجہ سے جہاں نئی نسل اچھے برے کی پہچان کھوبیٹھتی ہے وہیں معاشرے میں نفرت ، انارکی اور تعصب کازہر بھی پھیل جاتاہے۔چنانچہ پھر کچھ لوگ اس مواد کے حق میں اور کچھ اس کے خلاف آپس میں دست و گریباں ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ تولڑائی جھگڑے اور قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔

جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آج کاContent Creatorایک Influencer بن چکا ہے اور اس کی رائے کو دیکھا ، سنا اور قبول کیاجاتاہے توہمارے ذہن میں یہ آئیڈیا آیاکہ ان Content Creatorsکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے انھیں سوشل میڈیا جیسے طاقتورمیڈیم کو ملکی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے، کیوں کہ اس اقدام سے انقلاب آسکتاہے۔چنانچہ’’Content Creators are Change Makers‘‘کے عنوان سے ہم نے PCہوٹل لاہور میں ایک بڑی کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا ۔اس کانفرنس میں ہم نے پاکستان کے صف اول کے یوٹیوبرز اورSocial Media Influencers کو مہمان خصوصی کے طورپر مدعو کیا، ان کاشاندار استقبال کیا، انھیں اسٹیج پر بٹھایا،اپنے خیالات کے اظہار کے لیے انھیں روسٹرم پیش کیااور اختتام پر شکریہ و تحائف کے ساتھ انھیں رخصت کیا۔ہماری اس کاوش کے پیچھے چندبنیادی مقاصد تھے۔

پہلا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے ان تمام کونٹنٹ کرئیٹرز کو ایک بڑے اسٹیج پر بلاکر انھیں یہ احساس دلایاجائے کہ آپ اس معاشرے او ر قوم کاایک قیمتی سرمایہ ہیں ۔آپ Change Makersہیں۔آپ معاشرے کو بدل سکتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں وہ طاقت ہے جس سے آپ نسلوں کی تربیت کرسکتے ہیں ۔دوسرا مقصد ان تمام حضرات کوکانفرنس کے شرکاء سے متعارف کروانا اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ہماری پروڈکشن ٹیم نے ان تمام یوٹیوبرزکے کام کی الگ الگ ڈاکومنٹریز بنائیں جنھیں ہم نے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا۔تیسرا اور اہم مقصد انھیں یہ دعوت فکر دینا تھا کہ بطور’’Social Media Influencer‘‘ آپ اپنے ملک اور معاشرے کی بہتری کے لیے کیا کرسکتے ہیں؟

اس کانفرنس میں سب سے زیادہ جس چیز پر تبادلہ خیال کیا گیا وہ ’’کونٹنٹ‘‘ تھا۔صبح سے شام تک ہم اپنے سننے اور دیکھنے کی حس کی مدد سے بے شمار طرح کا کونٹنٹ حاصل کرتے ہیں جو کہ منفی اور مثبت اعتبار سے ہمارے ذہن پر اثرانداز ہوتاہے اور غیر محسوس طریقے سے ہماری شخصیت کا حصہ بنتاہے۔کونٹنٹ کاسب سے بڑا ذریعہ ہماراموبائل فون ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان میں دوچیزیں طاقتور ہیں۔ ایک بھوک اور دوسرا موبائل فون۔ایک قسم بھوک تو وہ ہے جس کے شکار غریب لوگ ہیں اور وہ واقعی میں ہمدردی اور امداد کے مستحق ہیں ۔بھوک ان سے چھوٹے سے چھوٹا کام بھی کروارہی ہے۔دوسری بھوک وہ ہے جو کہ معاشرے میں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے اوروہ حرص او لالچ کی بھوک ہے جس میں اچھے بھلے مالدار لوگ بھی شامل ہیں۔یہ بھوک انسانوں سے ہر جائز و ناجائز کام کروارہی ہے ۔جبکہ موبائل اس لحاظ سے طاقتور ہے کہ آج جس کے گھر میں پانی بھی نہیں آرہا اس کے ہاتھ میں بھی سمارٹ فون موجود ہے ۔اب یہ صرف کال یامیسج کرنے والا آلہ نہیں رہا بلکہ پوری دنیا اس کے اندر سمٹ چکی ہے اور انسان اگر اس کادرست استعمال کرے تو اس کی زندگی میں انقلاب آسکتاہے۔

کونٹنٹ کے حوالے سے ایک اہم بات یہ کی گئی کہ ایک یوٹیوبر کی حیثیت سے آپ نے جو کچھ بھی اپ لوڈ کرنا ہو اس سے پہلے اپنے آپ سے دو سوال لازمی پوچھیں ۔پہلا سوال یہ کہ کیا آپ کامواد سچ پر مبنی ہے؟کیوں کہ جھوٹ ایک ایسی چیز ہے جو ایک دفعہ انسان سے سرزد ہوجائے تو پھر اس کو چھپانے کے لیے دس اور جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔عقل مندکہتے ہیں کہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، وہ بہت جلد پکڑا جاتاہے اورپھر انسان قابل اعتبار نہیں رہتا۔دوسرا سوال یہ کریں کہ آپ جو پبلش کررہے ہیں ، اس کا کوئی مقصد بھی ہے؟ غیرمفید مواد اپ لوڈ کرکے آپ اپنے دیکھنے والوں کا وقت ضائع تو نہیں کررہے اور نئی نسل کو ایک بے مقصد چیز کے پیچھے تو نہیں لگارہے!!

یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ سوشل میڈیا پر صرف Contentاپ لوڈ کرناکمال نہیں بلکہ ایسا Contentڈالنا کمال ہے جو سب سے منفرد اورنفع بخش ہو اور پھر اس سے بھی ضروری بات یہ ہے کہ آپ اپنے مواد کے اس معیار کو برقرار بھی رکھیں ۔سیلف ہیلپ کی ایک بہترین کتاب ’’زیرو ٹو ون‘‘کافلسفہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں وہ انسان کامیاب ہوئے ہیں جوزمانے سے کچھ ہٹ کر چلے ہیں اورمنفرد طریقے سے اپنا کام پیش کیا ہے۔کچھ نیا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کسی ایک شعبے میں خود کو اس حد تک قابل بنائیں کہ آپ اس کے ایکسپرٹ بن جائیں۔ ایکسپرٹ بننے کے لیے محنت کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔یہ یادرکھیں کہ اگر آپ نے خود پر محنت نہیں کی اورکام سے زیادہ نام بڑھانے کی کوشش کی تو آپ ایکسپوز ہوجائیں گے اورآپ کی شہرت آپ کے گلے پڑجائے گی۔اس لیے لوگوں کے سامنے آنے سے پہلے بھرپورتیاری کریں۔پک کر تیار ہوجانے کے بعدجب آپ اپنی مہارت کے ساتھ اپنی تخلیقی صلاحیت کا بھی استعمال کریں تو پھر آپ کاContent ’کاپی پیسٹ‘ نہیں ہوگا بلکہ ایک معیاری مواد ہوگاجو حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگیاں بدلے گا۔

یوٹیوبرز کو اس بات کی بھی ترغیب دی گئی کہ آپ جب سوشل میڈیا پرکچھ اپ لوڈ کرنا چاہیں تو اس با ت کا خصوصی خیال رکھیں کہ وہ مواد لوگوں کی زندگیوں سے Relateکررہاہو،کیوں کہ آپ کامواد کتنا ہی تخلیقی ، قیمتی اورالہامی کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ ایک عام بندے کی زندگی سے جڑ نہیں رہا اور وہ اس سے روزمرہ زندگی میں کوئی فائدہ نہیں اٹھارہا تو وہ اس کو قبول نہیں کرے گااور یوں آپ کی محنت ضائع چلی جائے گی۔

سوشل میڈیا پر اپنا مواد شیئر کرنے سے پہلے یہ فیصلہ بھی کرلیں کہ آپ کے مواد کی زندگی کتنی ہے؟ آیایہ صرف ایک دن کے لیے ہے۔جیسے کہ کوئی بھی بڑا واقعہ ہوا جس کے ساتھ آپ کاکوئی تعلق ہی نہیں تھا لیکن وقتی اُبال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے اس پر ویڈیو بنادی ، دو چار دن تک اس کو لائکس مل توجائیں گے لیکن اخبار کی طرح اس کی زندگی بھی صرف ایک دن کی ہی ہوگی اور اس کے بعد کوئی بھی اس کو دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔گزشتہ دو تین سالوں میں ہونے والے بڑے بڑے واقعات کی مثال ہمارے سامنے ہے ،جن کو اُن دنوں میں اگرچہ بھرپور ریٹنگ ملی لیکن آج کسی کو یاد بھی نہیں ۔
اس کے برعکس اگر آپ ایسے موضوعات پرمواد بنائیں جو فکری ، اخلاقی اوراسکلز کے لحاظ سے لوگوں کوفائدہ دے اور اس کی بدولت ان کی زندگی میں کوئی بہتری آئے تو یہ وہ مواد ہوگا جوآج سے پانچ سال بعد بھی اسی طرح قابل قدر ہوگااوراس کی وجہ سے آپ کو عزت ، شہرت اور مالی فراوانی ملے گی۔

اس تحریر کے توسط سے ہم پاکستان کے دیگر یوٹیوبرز اور Social Media Influencersکو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آئیں ، قدم بڑھائیں اور آپ کے ہاتھ میں جو طاقت ہے اس کو ملکی ترقی اور نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے استعمال کریں اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں ۔اگر ہم نے اس طاقتور میڈیم کودرست استعمال کرنا شروع کردیا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا شمار بھی ترقی یافتہ اقوام میں ہوگا۔