Author Topic: یونیورسٹی کی سطح تک چھیانوے فیصد طالبعلم تعلیم خیر باد  (Read 983 times)

Offline فائزہ

  • Good Member Group
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 1749
  • My Points +0/-0
  • Gender: Female
<span dir="rtl" align="justify"><justify>
<font face="Tahoma" size="4">
یونیورسٹی کی سطح تک چھیانوے فیصد طالبعلم تعلیم خیر باد

ملک میں پرائمری کی نسبت یونیورسٹی کی سطح تک پہنچتے پہنچتے95.8 فیصد طالبعلم تعلیم کو خیربادکہہ دیتے ہیں۔ 42 فیصد آبادی نے زندگی میں کبھی کسی تعلیمی ادارے کا رخ نہیں کیا۔ اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔20 فیصد آبادی تعلیمی سہولتوں سے محروم ہے اور پرائمری کی سطح کے تعلیمی معیار میں 134 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر117 واں ہے۔ جنگ ڈیولپمنٹ رپورٹنگ سیل نے ملک میں تعلیمی شعبے کی کارکردگی اور مختلف تعلیمی سطحوں پر طالبعلموں کی تعداد پر جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق 2008-09 میں پرائمری کی سطح پر ایک کروڑ 73 لاکھ 66 ہزار جبکہ یونیورسٹیوں میں صرف 7 لاکھ41 ہزار 92 طالبعلم زیر تعلیم تھے یوں ہائر ایجوکیشن، وزارت تعلیم اور وفاقی شماریاتی اداروں کی رپورٹس کے اعداد وشمارکے مطابق پرائمری کی سطح کی نسبت جامعات میں صرف4.2 فیصد طالبعلم حصول تعلیم میں مصروف تھے جبکہ پرائمری سے مڈل تک 68.9، ہائی تک 85.5 اورکالجوں کی سطح تک پہنچتے پہنچتے92.1 فیصد طالبعلم تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔گزشتہ سال76 لاکھ 23 ہزار لڑکیاں پرائمری کی سطح پر زیرتعلیم تھیں جس کی نسبت مڈل کی سطح تک 70 فیصد مڈل86.3، کالجوں تک90.6 اور یونیورسٹیوں تک 95.5 لڑکیاں تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ یوں پرائمری سے جامعات تک پہنچنے سے پہلے 72 لاکھ 80 ہزار 875 لڑکیاں مختلف وجوہ کی بناء پر تعلیم سے کنارہ کش ہو جاتی ہیں۔ 2008-09 میں97 لاکھ لڑکے پرائمری کی سطح پر داخل تھے جبکہ مڈل تک پہنچتے پہنچتے68، ہائی84.7کالج کی سطح تک 93.4 اور یونیورسٹیوں میں پہنچنے سے پہلے95.9 لڑکے تعلیم کو خیرباد کہہ دیتے ہیں یوں پرائمری سے یونیورسٹی پہنچنے سے پہلے93 لاکھ 44 ہزار 33 لڑکے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔ ماہرین تعلیم کسی بھی تعلیمی نظام میں پرائمری ایجوکیشن کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں جبکہ ملک کا حال یہ ہے کہ ورلڈ اکنامک فورم نے دنیا کے جن 134 ممالک میں پرائمری تعلیم کے معیار پر تحقیقی رپورٹ تیارکی ہے اس میں پاکستان کا نمبر 117 واں ہے جبکہ20 فیصد آبادی کو تعلیمی سہولتوں سے محروم قرار دیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد لڑکیاں اور47 فیصد لڑکے پرائمری کی سطح کی تعلیم مکمل کر پاتے ہیں۔ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں شرح ناخواندگی68 فیصد تک ہے۔ ایجوکیشن منسٹری کے مطابق پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف2.1 فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جو ماہرین کے مطابق جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح ہے۔ نیشنل ایجوکیشن پالیسی 2009 میں تعلیم کے لیے جی ڈی پی کی شرح کو 2010ء تک 5 اور 2015 تک 7 فیصد تک کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ 2010ء تک تو50 فیصد ہدف بھی حاصل نہ ہو پایا۔ آئندہ 5 برسوں میں کیا ہوگا؟ جواب دینا زیادہ مشکل نہیں۔ یاد رہے کہ اس حوالے سے بین الاقوامی شرح اوسط 5 فیصد ہے جبکہ اکثر ممالک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ ایتھوپیا،کینیا، موزمبیق اور سینیگال جیسے کئی غریب ممالک نے حالیہ سالوں میں اپنی قومی آمدنی میں تعلیم کے لیے مختص رقوم میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس سے ”اسکول سے باہر“ بچوں کی تعداد میں زبردست کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بالغوں میں شرح خواندگی54 جبکہ جنوبی ایشیا میں یہ اوسط 64 اور ترقی پذیر ممالک میں79 فیصد ہے۔ ملک میں نیٹ پرائمری انرولمنٹ کی شرح 66 اور مڈل میں30 فیصد جبکہ جنوبی ایشیا میں بالترتیب 86 اور 51 فیصد ہے۔ پاکستان دنیا میں اسکول سے باہر بچوں میں (نائیجریا اور بھارت کے بعد) تیسرے نمبر پر ہے جبکہ یونیسکو نے خدشہ ظاہرکیا ہے کہ 2015ء تک پاکستان اس حوالے سے دوسرے نمبر پر آجائے گا۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ میرمنٹ سروے کے مطابق ملک کی42 فیصد آبادی (10 سال سے زائد) کبھی تعلیمی اداروں میں نہیں گئی۔ صوبہٴ پنجاب کی38 فیصد، سندھ 42، سرحد 49 اور بلوچستان کی58 فیصد آبادی کبھی تعلیمی اداروں میں نہیں گئی۔ ملکی شہروں میں27 اور دیہات کی49 فیصد آبادی کبھی تعلیمی اداروں میں نہیں گئی۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں45، سندھ59، سرحد 52 اور بلوچستان کی 66 فیصد دیہی آبادی نے کبھی تعلیمی اداروں کا رخ نہیں کیا۔
</font></span>