Author Topic: مقابلے کے امتحان کا نیا طریقہ کار  (Read 1332 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
Competitive Examination css exam new pattern 2020-2022

مقابلے کے امتحان کا نیا طریقہ کار
ٹاپ سول بیوروکریسی کیلئے اصلاحات ایجنڈا تیار، تنخواہ میں اضافہ کارکردگی پر، پنشن اور مقابلے کے امتحان کا نیا طریقہ کار
دی نیوز کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ڈاکٹر عشرت حسین نے عمران خان حکومت کے سول سروسز میں اصلاحات کے ویژن کے بارے میں بات کی تاکہ حکومت کی کارکردگی بہتر بنائی جا سکے اور ملک اور اس کے عوام کیلئے خوشحالی لائی جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ بھرتی کیلئے حکومت سول سروسز امتحانات میں حصہ لیتے وقت دائرہ کار کی معلومات (ڈومین نالج) ہونے کا عنصر شامل کر رہی ہے۔ اس وقت ممکن ہے آپ نے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہو لیکن کوٹہ سسٹم کی وجہ سے اور اگر آپ کا تعلق پنجاب سے ہے تو آپ کو ڈی ایم جی یا فارن سروسز میں جگہ نہیں ملے گی، اور آپ آڈٹ یا اکائونٹ سروسز گروپ میں چلے جائیں گے۔

نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کی بنیادی معلومات آپ کی اُس ملازمت سے غیر ہم آہنگ ہوگی جو آپ کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ یا تو اکتا جائیں گے یا پھر کلرک یا نچلے اسٹاف پر انحصار کرنے لگ جائیں گے۔ لہٰذا، حکومت فی الوقت ایسے شاندار خواتین و مرد افسران سے ان کی اصل صلاحیت کے مطابق بھرپور استفادہ نہیں کر پا رہی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں امتزاجی اپروچ کی طرف بڑھنا ہوگا جس میں عام افسران اور ماہر افسران کی خوبیوں کو بھرپور انداز سے استعمال کرنا ہوگا۔ لہٰذا، بھرتی کے وقت، ہم ایسے امیدواروں کیلئے مراعات پیش کریں گے جو اپنی ترجیحات سے ملتے جلتے ہوں گے اور اس میں پیشگی ڈومین نالج بھی شامل ہوگی۔

درخواست دینے اور سینٹرل سروسز کے امتحان میں حصہ لینے کیلئے تعلیمی قابلیت کی کوئی حد نہیں ہوگی۔ آپ چاہے ڈاکٹر ہوں یا انجینئر، لیکن اگر آپ کو فارن سروس میں ملازمت چاہئے تو لازمی ہے کہ آپ نے اختیاری مضامین میں انٹرنیشنل لاء یا انٹرنیشنل ریلیشنز کا امتحان ضرور دیا ہو۔

اگر آپ کو پولیس میں ملازمت چاہئے تو لازمی ہے کہ آپ نے اختیاری مضامین میں کرمنالوجی اور دیوانی و فوجداری ضابطہ قانون کا امتحان دیا ہو۔ لہٰذا، یہی وہ طریقہ کار ہے جو حکومت متعارف کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ حکومت سی ایس ایس امتحان کیلئے اسکریننگ ٹیسٹ متعارف کرا رہی ہے کیونکہ فی الوقت ہر سال امتحانات کے بعد 16؍ ہزار کاپیوں کی جانچ پڑتال بہت مشکل کام ہے۔

لہٰذا ہم کثیر الانتخابی سوالات (ایم سی کیوز) پر مشتمل امتحان متعارف کرائیں گے جس سے اسکریننگ کے مرحلے پر کئی لوگ امتحان سے باہر ہو جائیں گے لیکن ساتھ ہی علاقائی / صوبائی اور دیگر کوٹا کا بھی خیال رکھا جا سکے گا۔

نتیجہ یہ نکلے گا کہ باقی رہ جانے والے 2؍ ہزار امیدواروں کا برطانوی سول سروسز کے نمونے پر نفسیاتی جائزہ (سائیکو میٹرک اینالیسز) لیا جا سکے گا۔ اس مرحلے کے بعد، امیدوار لازمی اور اختیاری مضامین کے تحریری امتحان میں حصہ لے سکیں گے اور اس کے بعد انٹرویوز کا انعقاد ہوگا۔

ڈاکٹر حسین نے کہا کہ اس کے بعد دوسرا مرحلہ تربیت کا ہے۔ اس وقت سول سروس کے مختلف مراحل پر تربیتی سطح میں کوئی فرق نہیں رکھا جاتا۔ تربیت کا ملازمت کی ضروریات سے کوئی تعلق نہیں۔ اصلاحات میں اس معاملے پر دھیان دیا جائے گا۔

سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہمیں منظم انداز سے عمومی افسران اور ماہر افسران کی تربیت کرنا ہوگی۔ 29؍ ہزار وفاقی افسران میں سے صرف 6؍ ہزار عمومی افسران (جنرلسٹ) ہیں یا جنہیں ہم کیڈر افسر کہتے ہیں۔ باقی 23؍ ہزار نان کیڈر افسر ہیں ان میں انجینئرز، ڈاکٹرز، اکائونٹنٹ، فنانشل اینالسٹ اور دیگر شامل ہیں۔

انہیں کوئی طے شدہ تربیت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے کیریئر کی کوئی مخصوص سمت ہوتی ہے۔ یہ لوگ پریشان ہوتے ہیں اور ان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور اسی لیے یہ لوگ زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔

یہ لوگ کارکردگی دکھانے کے معاملے میں سستی دکھاتے ہیں حالانکہ ان کے پاس پاکستان کی یا بیرون ممالک کی بہترین جامعات کی ڈگریاں ہوتی ہیں لیکن انہیں 12؍ سال میں بھی 18؍ سے 19؍ گریڈ میں آنے کیلئے ترقی نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسے لوگوں کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتے ہیں تاکہ سپیریر سروسز اور دیگر سروسز کے درمیان حائل اس مصنوعی حد بندی کو ختم کیا جا سکے۔

کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ پی ڈبلیو ڈی، ایری گیشن، کسٹم، ریونیو، ڈویلپمنٹ اتھارٹیز جیسا کہ سی ڈی اے اور ایل ڈی اے، پولیس وغیرہ جیسے شعبہ جات میں کرپشن کیوں ہے؟ کیونکہ ایسے محکموں میں کیریئر کے حوالے سے مستقبل کی پلاننگ شامل نہیں، ان محکموں کے لوگ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنی ذات میں اضافہ کرتے ہیں اور خود کو بچانے کیلئے اثر رسوخ خریدتے ہیں۔

نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے ادارے ہونے کے باوجود عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تین دہائیوں کے مقابلے میں ان تمام محکموں میں کرپشن آج پہلے سے زیادہ ہے۔ یہ حال تعلیم، صحت اور اے جی آفس کا بھی ہو چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ کابینہ نے پہلے ہی تمام اسپیشلسٹس کی بھرتی کے بعد انہیں تربیت دینے کے منصوبے کی منظوری دیدی ہے اور اس کے بعد 18، 19 اور 20؍ گریڈ کے افسران کی دوران ملازمت تربیت کی بھی منظوری دیدی گئی ہے۔ لہٰذا اس صورتحال میں جنرلسٹس اور اسپیشلسٹس دونوں کیلئے مساوی مواقع موجود ہوں گے۔

آج جو امتیازی ماحول موجود ہے وہ ختم ہو جائے گا اور افسران موثر انداز سے خدمات انجام دے پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بڑے منصوبے ہیں اور انجینئرز کو کبھی موقع نہیں ملا کہ وہ اپنی معلومات کو دوبارہ تازہ کریں یا نئی چیزیں سیکھیں۔

حکومت بیرون ممالک سے ماہرین کی خدمات حاصل کرتی ہے اور انہیں بھاری معاوضہ دیتی ہے اور ہم اس بات کا جائزہ بھی نہیں لے پاتے کہ انتہائی مہنگے داموں پر حاصل کی گئی ان خدمات کا معیار کیا ہے۔ وزیراعظم انسپکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق، ایسے منصوبوں پر خرچ کی جانے والی رقوم اصل تخمینوں سے 150؍ فیصد زیادہ ہے۔

لہٰذا، ہم ایسے ماہرین کا کیڈر تیار کریں گے جنہیں تربیت دی جائے گی، وقت کے ساتھ ان کے ہنر میں اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی ان کے کیریئر کی سمت کا تعین بھی ہوگا، انہیں ان کی کارکردگی کے مطابق مشاہرہ ملے گا تاکہ پروجیکٹس کے معیار کے لحاظ سے ان کی کارکردگی کا جائزہ بھی لیا جا سکے۔ نان کیڈر اور ایکس کیڈر افسران کیلئے تربیتی اسکیم کابینہ پہلے ہی منظور کر چکی ہے اور اب اس پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر عشرت حسین نے کہا کہ حکومت ’’پرفارمنس مینجمنٹ‘‘ کے معاملے میں بھی تبدیلیاں کر رہی ہے، جو ان اصلاحات کا تیسرا مرحلہ ہے اور کابینہ نے اس کی بھی منظوری دیدی ہے۔

آج ہم سالانہ کارکردگی رپورٹ (اینوئل کانفیڈنشل رپورٹ) کی تیاری کے معاملے میں نوآبادیاتی نظام میں بنائے گئے طریقہ کار پر عمل کر رہے ہیں جس میں کارکردگی کا کوئی ٹھوس ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی ملازمت یا مستقبل میں صلاحیت میں اضافے کی کوئی بات معلوم ہوتی ہے۔

لہٰذا ہم انہیں معروضی جائزہ سسٹم (کے پی آئی) کے ساتھ بدل رہے ہیں جس پر ماتحت ملازم اپنے افسر بحث و مباحثہ بھی کر سکتا ہے۔

دونوں اس کے پی آئی رپورٹ پر دستخط کریں گے جو ایک سال پر مشتمل ہوگی۔ گروپ میں صرف 20؍ فیصد کو شاندار تصور کیا جائیگا، 60؍ فیصد کو اطمینان بخش جبکہ 20؍ فیصد کو اوسط سے نیچے سمجھا جائے گا۔

کارکردگی کا تعلق ترقی سے ہوگا۔ اگر کسی افسر نے مستقل اطمینان بخش کارکردگی نہ دکھائی اور 20؍ فیصد یا اس سے کم کیٹگری میں شامل رہا تو اس کا کیس کمیٹی کے روبرو پیش کرکے اسے قبل از وقت ریٹائر کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ پروموشن پالیسی پر سخت تنقید کی جاتی رہی ہے کیونکہ الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ حکومت جنہیں اچھا سمجھتی ہے انہیں ترقی ملتی ہے اور جنہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا انہیں سزا دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سلیکشن بورڈ میں 14؍ انتہائی سینئر افسر شامل ہیں جن کا تعلق مختلف سروسز، صوبوں، پس منظر سے ہے اور انہیں معیاری جائزہ شیٹ فراہم کی جاتی ہے کہ وہ متعین کردہ معیارات کے مطابق مارکس دیں۔ حتمی فیصلہ 30؍ نمبرز میں سے کیا جاتا ہے، صوابدیدی عنصر کو کم سے کم سطح پر رکھا جاتا ہے۔

اے سی آر کو کم وزن دیا جاتا ہے کیونکہ انہیں شاندار کارکردگی دکھانے والوں کے حق میں تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی نیا پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم مکمل طور پر فعال ہوا تو کارکردگی رپورٹس کا وزن بھی اہمیت اختیار کرے گا۔

ڈاکٹر عشرت کے مطابق، ایک اور چیز جس پر غور کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کارکردگی دکھانے یا نہ دکھانے والوں کو بلا امتیاز تنخواہوں میں سالانہ 15؍ فیصد اضافہ ملتا ہے۔

ہم جو تبدیلی لا رہے ہیں اس کے مطابق بہترین کارکردگی دکھانے والے کو 20 سے 25؍ فیصد، اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کیلئے 10؍ سے 15؍ فیصد جبکہ اوسط سے نیچے کارکردگی دکھانے والے کو کوئی اضافہ نہیں دیا جائے گا۔

ہم افسران کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ کام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ اگر کوئی افسر یہ سمجھتا ہے کہ اسے تربیت کی ضرورت ہے تو یہ اس کے افسر بالا کا کام ہوگا کہ وہ اس کی مناسب تربیت کا انتظام کرے۔

انہوں نے کہا کہ اصلاحات میں چوتھا معاملہ کیریئر کی سمت کا تعین کرنا ہے۔ آج آپ وزارت مذہبی امور میں جوائنٹ سیکریٹری ہیں اور کل آپ کو وزارت صنعت میں جوائنٹ سیکریٹری لگایا جا سکتا ہے۔

اب آپ کیسے اس پوزیشن پر اپنی کارکردگی دکھا سکیں گے جب آپ کے پاس نئی ملازمت کے متعلق کوئی معلومات ہی نہیں؟ اس مسئلے سے نمٹنے کیلئے ہم کلسٹرنگ ماڈل لا رہے ہیں۔

19؍ گریڈ پر آپ چاہے میڈیکل ڈاکٹر ہوں یا انجینئر یا زرعی محقق یا پھر پی اے ایس افسر یا پی ایس پی، اس مرحلے پر افسران کو کلسٹر کی صورت میں گروپس میں شامل کیا جائے گا۔

اس طرح کچھ لوگ مالی یا معاشی وزارتوں میں رہیں گے، کچھ سوشل سیکٹرز میں اور کچھ تکنیکی وزارتوں میں اور کچھ عمومی انتظامی کیڈر میں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ’’مشاہرہ اور مراعات‘‘ کے معاملے میں کئی پہلوئوں پر غور کر رہی ہے۔ وفاقی حکومت میں اس وقت 6؍ لاکھ 40؍ ہزار ملازمین کام کر رہے ہیں، ان کا 95؍ فیصد حصہ گریڈ ایک سے 16؍ تک میں کام کرتا ہے جبکہ صرف 5؍ فیصد گریڈ 17؍ سے 22؍ تک آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے افرادی قوت کے نظام میں کتنا عدم توازن ہے۔

ہمارے پاس بہت زیادہ نائب قاصد ہیں، بہت زیادہ کلرک اور اسسٹنٹ ہیں، اور نیشنل پے اسکیل کی وجہ سے انہیں ان کے نجی شعبوں میں موجود ہم منصبین کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں مل رہی ہیں۔

نتیجہ یہ ہے کہ ایک پرائیوٹ سیکریٹری کو وہی تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں جو پمز اسلام آباد میں ایک نیورو سرجن کو مل رہی ہیں، کیونکہ دونوں کا گریڈ 19؍ ہے۔ اس لئے ہم ای گورننس لانا چاہتے ہیں تاکہ وقت کے ساتھ سیکریٹریل اسٹاف کم کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ہم گریڈ 17؍ سے 22؍ تک کی مزید اسامیاں لانا چاہتے ہیں۔ آج دیکھا جائے تو گریڈ 22؍ کی تنخواہ میں بھی حکومت میں کام کرنے کیلئے ماہرین ملنا بہت مشکل ہیں۔

ہم کسی سے چھٹکارا حاصل نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم ریٹائر ہونے یا مستعفی ہونے والے افسران کی جگہ اچھے لوگ لائیں گے۔ اس عمل کے دوران ہم بچت کو تنخواہیں بڑھانے اور کارکردگی دکھانے والوں کو انعام دینے پر خرچ کریں گے۔

یہ تجربہ کامیابی کے ساتھ اسٹیٹ بینک میں گزشتہ 15؍ سال سے کیا جا رہا ہے جہاں نئے بھرتی ہونے والی تنخواہ ایم این سیز میں کام کرنے والے افسران کے مساوی ہوتی ہیں۔ اور آخر میں ہمارے پاس ریٹائرمنٹ کی باقاعدہ پالیسی ہے اور اس کے ساتھ ہی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کی بھی پالیسی ہے جسے منظور کیا جا چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پنشن ایک ایسا بم ہے جو مستقبل میں پھٹنے والا ہے کیونکہ ہمارے پنشن کے اخراجات ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں۔ در حقیقت ہماری پنشن کے اخراجات اصل میں تنخواہوں کے اخراجات سے بڑھ چکے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ایک طے شدہ حصہ داری کا نظام لائیں۔

حکومت نے پے اینڈ پنشن کمیشن تشکیل دیا ہے جو پنشن اصلاحات پیش کرے گا تاکہ پنشن فنڈ قائم کیا جا سکے اور طے شدہ حصہ تشکیل دیا جا سکے۔ اس سے نہ صرف حکومت کو مستقبل میں مالی بوجھ نہیں اٹھانا پڑے گا بلکہ پاکستان میں کیپیٹل مارکیٹس کو مزید بڑا کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ ان اصلاحات کا نتیجہ سامنے آنے میں بہت وقت لگے گا اور ان پر عمل کے دوران کئی چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ ایسے لو گوں سے مزاحمت بھی سامنے آئے گی جو جمود سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور بنا کسی کوشش کے بڑی تنخواہوں اور مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

یہ لوگ سیاست دانوں اور میڈیا سے رابطے کریں گے، عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے کہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ کئی طرح کی تاخیریں ہوں گی، عارضی طور پر پائوں پیچھے کرنا پڑیں گے۔

ہم کوئی سیدھا راستہ نہیں چل پائیں گے، رکاوٹیں ضرور آئیں گی، اسلئے ہمیں بھی ٹیڑھا میڑھا راستہ اختیار کرنا ہوگا، لہٰذا فوری طور پر کامیاب نتائج کی توقع کرنا ٹھیک نہیں۔
حوالہ: یہ خبر روزنامہ جنگ لاہور ایڈیشن میں مورخہ دس مئی 2020 کو شائع ہوئی