Author Topic: ماحول  (Read 931 times)

Offline Abdullah gul

  • Teme-03
  • Hero Member
  • **
  • Posts: 3411
  • My Points +3/-0
  • Gender: Male
ماحول
« on: August 30, 2009, 03:20:06 PM »
ماحول

٫٫ ماحول سے مراد وہ گرد و نواح جو ایك انسان یا كسی بھی زندگی كو تمام عمر متاثر كریں۔٬٬

ماحول جس میں طبعی خدوخال، آب و ہوا، مٹی اور قدرتی نباتات وغیرہ شامل ہیں، انسانی زندگی پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ انسان كی وہ تمام سرگرمیاں جو وہ كسی علاقے میں سر انجام دیتا ہے چاہے معاشی ہوں یا سیاسی، سماجی ہوں یا مذہبی، معاشرتی ہوں یا اقتصادی، قدرتی ماحول ان سرگرمیوں پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔

ماحولیاتی مسائل:

ماحولیاتی مسائل سے مراد وہ تمام مسائل ہیں جو ماحول كے ناموافق یا غیر موزوں ہون سے پیدا ہوتے ہیں۔ جس سے نہ صرف انسانی زندگی بلكہ حیوانی، نباتاتی اور آبی زندگی كو نقصان پہنچتا ہے۔ آئیے ہم دیكھتے ہیں كہ ماحولیاتی مسائل كون كون سے ہیں اور كس طرح یہ انسانی زندگی پر اپنے منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔

1۔ سیلاب

    پاكستان میں بارشیں تمام سال یكساں مقدار میں نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر بارشیں موسم گرما كے آخر یعنی جولائی اور اگست كے مہینوں میں ہوتی ہیں۔ پہاڑی ڈھلوانوں پر بارشیں زیادہ ہوتی ہیں۔ كچھ پانی تو زمین میں جذب ہو جاتا ہے جبكہ زیادہ تر بارش كا پانی نشیبی علاقوں كی طرف بہتا ہے۔ اس طرح دریا كی گزرگاہ پانی سے بھر جاتی ہے اور پانی كناروں سے باہر نكل آتا ہے جس سے سیلاب آتے ہیں۔

    دوسری بڑی وجہ یہ ہے كہ دریائے سندھ اور اس كے معاون دریاوٕں ﴿دریائے جہلم، چناب، راوی اور ستلج وغیرہ﴾ كے منبعے زیادہ تر برف سے ڈھكے ہوئے پہاڑی سلسلوں میں واقع ہیں۔ موسم گرما كے آغاز سے برف پگھلنا شروع ہو جاتی ہے اور دریاوٕں میں پانی كی مقدار میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اكثر موسم گرما كے آخر میں سیلاب آتے ہیں۔

    موسم برسات میں زیادہ تر بارشوں سے دریائے سندھ اور اس كے معاونین كی گزرگاہ میں پانی كی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ اس سے بھی سیلاب آتے ہیں اور پاكستان كو بہت سا جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ فصلیں زیادہ تر انہی سیلابی میدانی علاقوں میں ہوتی ہیں كیونكہ دریاوٕں كی لائی ہوئی مٹی بہت زرخیز ہوتی ہے۔ جو زراعت كے لیے بہت موزوں ہے۔ سیلاب سے قریباً ہر سال فصلوں كو كافی نقصان پہنچتا ہے۔ 1976,1988 اور1992ئ كے سیلابوں سے پاكستان كو بہت سا جانی و مالی نقصان برداشت كرنا پڑا۔

    حكومت نے سیلاب كی روك تھام كے لیے بہت سے اقدامات كیے ہیں۔ پنجاب كے دار الحكومت لاہور میں محكمہ موسمیات كے جیل روڈ پر واقع دفتر میں راڈار ںصب ہے جو دریاوٕں میں پانی كی مقدار اور بر وقت احتیاطی تدابیر كے لیے معلومات فراہم كرتا ہے۔ علاوہ ازیں دریاوٕں كے دونوں كناروں كو بلند اور مضبوط كیا جاتا ہے۔ كناروں پر درخت لگائے جاتے ہیں تاكہ پشتے مضبوط ہو سكیں۔ بعض مقامات پر بند اور بیراج بنائے گئے ہیں۔ سیلاب صرف دریائے سندھ كے میدانی یعنی صوبہ پنجاب اور سندھ تك ہی محدود نہیں بلكہ یہ كوہ سلیمان اور بلوچستان كے كچھ علاقوں میں بھی آتے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں حكومت اور فلاحی ادارے لوگوں كی مدد كرتے ہیں۔ان كی رہائش اور خوراك كا بندوبست كیا جاتا ہے۔ طبی امداد مہیا كی جاتی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں كو دوبارہ آباد اور قابل كاشت بنانے كے لیے حكومت علاقے كے لوگوں كی امداد كرتی ہے۔

2۔ زلزلے

     زمین كی بالائی سطح یا پوست زمین كئی ٹكڑیوں یا پلیٹوں سے مل كر بنی ہے۔ جب یہ ٹكڑیاں یا پلیٹیں حركت كرتی ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔ زلزلے آنے كی دوسری بڑی وجہ آتش فشانی عمل ہے یعنی جب زمین كے اندر گرم سیال مادہ حركت كرتا ہے یا زمین كی كمزور سطح كو پھاڑ كر باہر نكلتا ہے تو جس جگہ یہ عمل ہوتا ہے اس جگہ زمین حركت میں آ جاتی ہے جسے زلزلہ كہتے ہیں۔

    زلزلوں سے بڑے پیمانے پر تباہی و بربادی ہوتی ہے۔ جانی اور مالی نقصان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ماضی میں زلزلوں كا جائزہ لیا جائے تو دنیا میں پچھلے 80 سالوں میں قریباً 12 لاكھ سے زائد لوگ صرف زلزلوں كی نذر ہو چكے ہیں اور اربوں روپے كا نقصان ہوا۔ دنیا كی بدترین تباہی 2004ئ كے آخر میں سونامی سے ہوئی جس سے كئی ممالك متاثر ہوئے۔

    پاكستان میں بھی زلزلوں سے كافی جانی و مالی نقصان ہوا مثلاً مئی 1935ئ میں پاكستان كے وجود میں آنے سے پہلے كوئٹہ كے زلزلے میں قریباً30 ہزار لوگ ہلاك ہوئے اور املاك كو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا تھا۔ 1974ئ میں پتن ﴿شمالی علاقہ﴾ كے زلزلے میں قریباً5310 افراد ہلاك ہوئے تھے اور مالی نقصان بھی ہوا تھا۔ اكتوبر2005ئ میں پاكستان اور آزاد كشمیر میں آنے والے زلزلے سے ہزاروں افراد ہلاك ہوئے اور اربوں روپے كا مالی نقصان ہوا۔

    پاكستان میں زلزلوں كو ریكارڈ كرنے كا پورا نظام موجود ہے۔ اس وقت لاہور، كراچی، كوئٹہ، منگلا، چكوال، اسلام آباد اور پشاور سنٹرز كام كر رہے ہیں۔ اس كا ہیڈ كوارٹر كوئٹہ میں ہے۔ یہ سنٹرز پاكستان اور ارد گرد كے زلزلوں كو مكمل ریكارڈ كرتے ہیں۔ پاكستان كے چار علاقے زلزلوں كے اعتبار سے اہم ہیں۔ ان میں مغربی ہمالیہ كا سلسلہ، كوہ ہندوكش، كوہ مكران اور صوبہ بلوچستان كے پہاڑی علاقے شامل ہیں۔

3۔ خشك شالی

    پاكستان كے بڑے حصے میں بارشیں یا تو كم ہوتی ہیں یا بالكل نہیں ہوتیں۔ ایسے علاقوں كی سرگرمیوں كا انحصار بارش كے پانی پر ہے۔ ان علاقوں میں پاكستان كے صوبہ سندھ كا بالائی حصہ جس میں تھرپاركر، سبی اور جیكب آباد ہیں، سطح مرتفع پوٹھوار كا كچھ حصہ ﴿ضلع جہلم، چكوال﴾ اور سطح مرتفع بلوچستان كا كافی حصہ شامل ہے ان علاقوں میں آبپاشی كا نظام اتنا بہتر نہیں ہے كہ فصلوں كو وقت پر پانی میسر ہو بلكہ آب پاشی كا نظام ان علاقوں میں بعض جگہ موجود ہی نہیں لہٰذا بارش كم یا نہ ہونے سے پیداوار كم ہو جاتی ہے۔ یہاں تك كہ ہمیں اپنی غذائی ضروریات كو پورا كرنے كے لیے خوراك سے متعلقہ اجناس درآمد كرنی پڑتی ہیں۔ خشك سالی كی بنا پر بعض علاقوں میں جانوروں كے لیے چارہ كم پڑ جاتا ہے۔

    حكومت پاكستان نے خشك سالی سے نپٹنے كے لیے متعدد اقدامات كیے ہیں جن میں آبپاشی كے نظام كو بعض علاقوں میں زیادہ موثر بنایا گیا ہے۔ ہر سال نہروں كی بھل صفائی كی جاتی ہے تاكہ پانی آخر (Tail) تك پہنچ سكے۔ كچھ عرصہ پہلے حكومت نے ٫٫ چولستان ترقیاتی ادارہ٬٬ قائم كیا تاكہ علاقے میں آبپاشی كے ذریعے زراعت كو فروغ حاصل ہو اور خشك سالی كے مسئلے پر قابو پایا جائے۔ حكومت نے ٫٫ آباد٬٬ كے نام سے ایك ایجنسی قائم كی ہے جو بارانی علاقوں میں مختلف قسم كی فصلوں كی كاشت كو ممكن بنانے كے لیے كام كر رہی ہے۔ ایسے زیادہ پیدا آور نئے بیجوں كو تیار كیا جا رہا ہے جو كم پانی میں بھی پرورش پا سكیں۔ اس سلسلہ میں بارانی یونیورسٹی راولپنڈی اہم خدمات سر انجام دے رہی ہے۔

4۔ آندھیاں اور طوفان

    موسم گرما كے دوران پاكستان كے جنوبی اور جنوب مغربی حصے میں زیادہ درجہ حرارت كی وجہ سے كم دباوٕ كا حلقہ بن جاتا ہے۔ ارد گرد كے علاقوں سے تیزی كے ساتھ ہوائیں اس كم دباوٕ كے حلقے كی طرف چلتی ہیں جو ایك گرد باری نظام كی شكل اختیار كر لیتا ہے۔ آندھیاں بعض اوقات بارش كے ساتھ كافی تباہی كا باعث بنتی ہیں جس سے فصلوں اور پھلوں وغیرہ كو نقصان پہنچتا ہے۔

    پاكستان كے صوبہ پنجاب كے اكثر علاقے موسم گرما میں تیز ہواوٕں اور بعض اوقات آندھیوں اور طوفان اور باد و باراں كے زیر اثر آ جاتے ہیں۔

    پاكستان میں صوبہ بلوچستان كے مغربی حصے میں موسم سرما كے دوران تیز طوفانی ہوائیں چلتی ہیں اور بارشیں ہوتی ہیں۔ بلوچستان كا یہ حصہ وسطی گرد باد كے زیر اثر آ جاتا ہے۔

    پاكستان كے شمالی پہاڑی علاقوں میں سال میں عموماً اور موسم گرما میں خصوصاً تیز ہوائیں اور بارشیں ہوتی ہیں۔ اس سے كافی نقصان ہوتا ہے، راستے بند ہو جاتے ہیں اور مواصلات كا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ درخت جڑوں سے اكھڑ جاتے ہیں اور نظام زندگی بگڑ جاتا ہے۔ میدانی علاقوں میں طوفانی ہوائیں كھڑی فصلوں كو نقصان پہنچاتی ہیں۔ آندھیوں كی وجہ سے گرد اور ریت وغیرہ ماحول كو گندا كر دیتی ہیں۔