Author Topic: شان الحق حقی ہنسانے بلکہ خود پر ہنسنے کا فن بھی جانتے تھے،کیپٹن شایان حقی  (Read 2242 times)

Offline علم دوست

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 1288
  • My Points +2/-1

 
شان الحق حقی ہنسانے بلکہ خود پر ہنسنے کا فن بھی جانتے تھے،کیپٹن شایان حقی
   
لندن(رپورٹ:رضیہ سلطانہ) شان الحق حقی دوسروں کو ہنسانے کا ہی نہیں بلکہ خود پر ہنسنے کا فن بھی جانتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار شان الحق حق کے صاحبزادے کیپٹن شایان حقی نے علمی مجلس لندن کے زیر اہتمام لندن یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشن میں ”شان کی باتیں“ کے عنوان سے منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے کہا کہ والد کی علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد پر وہ عالمی مجلس لندن اور بطور خاص ڈاکٹر ضیاء الدین شکیب کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک علمی انسان تھے دوسروں کو ہنسنے ہنسانے کے ساتھ وہ اپنی ذات پر ہنسنا بھی جانتے تھے۔ انہوں نے ”بھائی بھلکڑ“ کے نام سے خود پر ایک نظم بھی لکھی۔ دنیاوی اور ادبی کاموں میں انہوں نے ایک توازن قائم کر رکھا تھا۔ ان کے آخری ایام کا ذکر کرتے ہوئے کیپٹن شایان حقی نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے انہیں اپنی موت کا علم ہو اور وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کو کبھی خالی بیٹھے نہیں دیکھا۔ وہ کوئی نہ کوئی کتاب یا رسالہ ضرور پڑھ رہے ہوتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت ادبی اور علمی مصروفیات کی نذر ہوتا تھا جس کے باعث وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد ایک خوش قسمت انسان تھے جنہیں ان کی والدہ کی شکل میں ایک اچھی خاتون خانہ ملیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی والدہ نے خود اٹھا رکھی تاکہ والد پوری یکسوئی سے علمی و فنی کام سر انجام دے سکیں۔ ڈاکٹر جاوید شیخ نے کہا کہ شان الحق حقی 1917ء سے 2005ء تک کوئی 88 برس اس دنیا میں رہے۔ انہوں نے قدیم وضع کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی حاصل کی۔ شان الحق حقی نے شہر دہلی کی معروف شخصیت حضرت ابوالحق محدث دہلوی کے گھرانے میں جنم لیا انہوں نے اردو زبان کے کئی کارآمد اور نازک پہلوؤں کی حفاظت کی ہے۔ تلفظ کے لئے فرہنگ تلفظ کے علاوہ اردو املا، لسانی اور صوتی مسائل کا بھی احاطہ کیا اور کئی گرانقدر مضامین لکھے۔ انہوں نے کہا کہ شان الحق حقی ایک فطری شاعر تھے کبھی وہ دلکش غزل سنا رہے ہوتے تھے تو کبھی کوئی خوبصورت نظم، نظم اور غزل کے علاوہ مزاح اور ظرافت کو بھی شاعری کا موضوع بنایا۔ وہ ہر بات میں کوئی نئی بات پیدا کرنے کا فن جانتے تھے۔انہوں نے کہا کہ حقی صاحب نے بھگون گیتا کا ایسا لاجواب ترجمہ کیا جو بعض بڑے پنڈتوں کے ترجموں سے کہیں بہتر ہے۔ بچوں کے لئے ”پھول کھلے ہیں رنگ برنگے“ سمیت کئی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ انگریزی ادب سے شیکسپیئر کے مشہور ناول انتھونی اور قلوپطرہ کو اردو کا لباس پہنایا۔ کونسائز آکسفورڈ ڈکشنری کے آٹھویں ایڈیشن کا اردو ترجمہ کیا۔ تقریب کی کنوینر ہما رائس نے کہا کہ شان الحق حقی کی تحریروں میں بہت تنوع تھا۔ وہ زبان کی چاشنی اور محاوروں سے پڑھنے والوں کے لئے سماع باندھ دیتے تھے۔ ارتہ شاسترا کا اردو ترجمہ کرنے سے قبل انہوں نے باقاعدہ سنسکرت سیکھی۔ شیکسپیئر کے ناول انتھونی اور قلوپطرہ کا اردو میں ترجمہ کر کے خود کو وقت کا بڑا مترجم ثابت کیا تاہم ترجمے کے دوران انہوں نے انگریزی الفاظ کے ہم پلہ اور ہم معنی اردو کے الفاظ اتنی مہارت سے استعمال کئے کہ پڑھنے والا داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قبل ازیں سوہن رابی نے گیت کی شکل میں شان الحق حقی کو خراج عقیدت پیش کیا۔ قدسیہ بانو آغا شاہ نے ”ببلو کی بولی“ جبکہ خدیجہ شمائل احمد نے ”بچے کی فریاد“ کے عنوانات سے نظمیں بنائیں۔ کہہ مکرنیاں کو اترا سکنیا جوشی اور گھوگھنیشوری کشور نے اداکاری کے سانچے میں ڈھالا۔ عاتر عقیل انصاری نے افسانہ ”تین تصویریں“ جبکہ ندا فاعلی اور فاطمہ شیخ نے شان الحق حقی کی غزلیں پڑھ کر سنائیں۔ ڈاکٹر کسم پنتہ جوشی نے بھگون گیتا کے اردو ترجمے کے ساتویں باب سے ”وجود حقیقی کا ادراک“ جبکہ شمس الدین آغا، جہانزیب سیفی اور شوکت خان نے انتھونی اور قلوپطرہ کے ڈرامے سے چند اقتباسات پیش کئے۔



شکریہ جنگ


میں بہت عظیم ہوں جو کہ بہت ہی عظیم علمی کام کررہا ہوں