استادِ محترم ڈاکٹر مسکین علی حجازی۔ اللہ آپ کے درجات بلند کرے,,,,ہم کلام…عابد تہامی
جو انسان اس دنیا میں آیا ہے اسے موت ضرور آنی ہے ۔ لیکن بعض ایسی شخصیات ہوتی ہیں جنکی وفات سے پورا معاشرہ غم میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے استاد، اور روحانی باپ ڈاکٹر مسکین علی حجازی ہزاروں شاگردوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹر حجازی کا انتقال 17جنوری 2009ء کوکراچی میں ہوا ۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں پنجاب یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ 19جنوری کو لاء کالج گراؤنڈ میں ان کے جنازے میں موجود ہرآنکھ اشکبار تھی ۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ بہت اچھے اور ہمیشہ مجھ پر شفقت کا ہاتھ رکھتے ۔
ڈاکٹر مسکین علی حجازی کا خاندان قیام پاکستان کے بعد پیر محل کے قریب ایک گاؤں میں آکر آباد ہوا انہوں نے بڑے اعزاز کے ساتھ 1954ء میں میٹرک کیا ۔ گورنمنٹ کالج فیصل آباد سے گویجوایشن کرنے کے بعد فیصل آباد کے نامور عالم دین مولانا تاج محمود کے مدرسے سے عربی اور فارسی میں فاضل کا امتحان پاس کیا۔ پھر اورینٹل کالج سے ایم اے اردو اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت میں اول پوزیشن حاصل کی۔ 1959ء میں پنجاب یونیورسٹی میں جب پہلی بار صحافت کا شعبہ شروع ہوا تو یہ پہلے طالب علموں میں سے تھے ۔ بعد میں اسی شعبہ کے پہلے پی ایچ ڈی بنے ۔ انہوں نے ”مسلم صحافت کی مختصر تاریخ “کے موضوع پر اپنا مقالہ تحریرکیا ۔ اورعملی زندگی کا آغاز ہفت روزہ چٹان سے کیا انہیں شورش کاشمیری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اس کے بعد وہ اپنے دور کے مقبول اخبار روز نامہ کوہستان سے وابستہ ہوگئے اور ایڈیٹر نسیم حجازی کے کہنے پر اپنے نام کیساتھ ”حجازی “کو شامل کیا۔ پھر وہ بطور لیکچرار شعبہ تدریس سے منسلک ہوگئے کچھ سالوں کے بعد چیئرمین بن گئے اور1997ء تک شعبہ کے چیئرمین رہے ۔
ڈاکٹر مسکین علی حجازی اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وفات سے چند ہفتے پہلے تک شعبہ ابلاغیات سے بطور وزٹنگ پروفیسر وابستہ رہے ۔وہ صحافت کے استاد ہی نہیں بلکہ ممتاز دانشور ، صحافی ، ادیب اور اداریہ نویس بھی تھے ۔ ان کی صحافت کے موضوع پر بیسیوں کتابیں ہیں جو پاکستان کی یونیورسٹیوں میں جرنلزم کے سلیبس میں شامل ہیں۔ ان کی تحریریں طلبہ اور اساتذہ کیلئے روشنی کا نمونہ ہیں۔ شائستگی ان کی تحریر کا سب سے بڑا حُسن ہے ۔ صحافت پر لکھی گئی کتب کے علاوہ ان کے ناول ”اللہ کا سپاہی “اور سفر نامہ” ڈالر کے دیس “کو بھی بہت شہرت ملی، حقیقت یہ ہے کہ وہ سیلف میڈ انسان تھے دوسروں کیلئے ہمدردی ، شفقت اور دردِ دل کا جذبہ رکھتے ،وہ ہمیشہ ہر ایک کی بھلائی چاہتے۔ پاکستان بھر میں اور بیرون ملک ان کے ہزاروں شاگرد آج ایک روحانی باپ سے محروم ہوگئے ہیں۔ مجھے بھی 1984-86ء کے دوران نہ صرف ان سے پڑھنے کا موقع ملا بلکہ انکی ہمیشہ رہنمائی حاصل رہی وہ ہر کسی کے رازوں کے امین بھی تھے۔ان سے استاد شاگرد کا جو تعلق قائم ہوا وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیااور ہمیشہ راہنمائی کیساتھ ساتھ حوصلہ افزائی بھی کرتے رہے ۔ پنجاب یونیورسٹی شعبہ ابلاغیات میں جب پہلی مرتبہ 1998ء میں ایم فل کی باقاعدہ کلاسیں شروع ہوئیں تو ایک مرتبہ پھر ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ایم اے میں وہ جب صحافت کی تاریخ پڑھاتے تو ایسا لگتا جیسے وہ خود اس دور میں تھے اور یہ سب واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے رہے ہیں۔ جب ایم فل میں کمیونیکشن کی تاریخ اور تھیوری پڑھا نا شروع کی تو ایک مرتبہ پھر ہمیں لگا کہ جیسے ہم کمیونیکشن کی تاریخی فلم دیکھ رہے ہیں ۔ آج جب وہ ہم میں نہیں تو ان کی شخصیت کے چھپے ہوئے مزید پہلوں بھی نمایاں ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ، ملتان یونیورسٹی ، گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان وغیرہ میں شعبہ صحافت قائم کرنے میں نہ صرف نمایاں کردار ادا کیا بلکہ ان کی باقاعدہ نگرانی بھی ان شعبہ جات کو حاصل رہی۔اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے ، اور درجات بلند کرے اور ان کے بیٹوں وقار حجازی ، شہباز حجازی اور دیگر پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ ہم سب کو ان کی دیانتداری اور دو سروں کیلئے دردِ رکھنے والے جذبے اور صحافت کی ترقی کیلئے کی گئی کوششوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی پاکستان کے موجودہ وزیراعظم کے بھی استاد رہے ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ان کی وفات پر تعزیت کیلئے ان کے گھر گئے، انہوں نے اس موقع پر اعلان بھی کیا کہ شعبہ ابلاغیات میں ” حجازی چیئر“ قائم کی جائے گی ۔بلاشبہ یہ ایک احسن اقدام ہے اس حوالے سے گزارش ہے کہ چیئر برائے چیئرنہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کی حیثیت ایک غیر جانبدار تحقیقی ادارے کی ہونی چاہئے۔ جو نہ صرف پاکستان میں ہونیوالی صحافت کی ارتقائی منازل کو غیر جانبداری سے تحقیقی صورت میں سامنے لائے بلکہ صحافت کے موجودہ رجحانات کو مانیٹر کرتے ہوئے تعمیری صحافت کیلئے جدید تقاضوں اور بین الاقوامی ضروریات کے مطابق بہترین نظام اور ضابطہ اخلاق بھی فراہم کرے۔ ان کیلئے اپنے استاد کو یاد کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہو سکتا ہے۔
شکریہ جنگ
...................................