Author Topic: اے پی ایم ایس او کا قیام، عروج اور زوال  (Read 454 times)

Offline AKBAR

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 4924
  • My Points +1/-1
  • Gender: Male
    • pak study
APMSO Rise and Fall

اے پی ایم ایس او کا قیام، عروج اور زوال: ’داخلوں سے محروم‘ طلبا کراچی کے کنگ میکر کیسے بنے؟
    جعفر رضوی:    صحافی، لندن:11 جون 2021

’پیٹھ پر ڈرل مشین سے اے پی ایم ایس او لکھا ہوا تھا،‘ فوج سے بریگیڈیئر ریٹائر ہونے کے باوجود اُن کے لہجے میں آج بھی عجیب سا تاثر تھا۔

’پی ایس ایف بھی تو لکھا ہوا تھا، ویسی ہی ڈرل مشین سے،‘ سیاستدان نے نیم دلی سے جھجھکتے ہوئے جرح کی کوشش کی۔

’میرے تو ہاتھ اور کلائیاں مہندی اور چوڑیوں کو ترس گئے،‘ سابق طالبہ رہنما نے شکوہ کیا۔

یہ فوجی افسر، سیاستدان اورسابق طالبہ رہنما سب کے سب مجھے اُس ’آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن‘ (اے پی ایم ایس او) کے قیام، عروج اور زوال کی کہانی سُنا رہے تھے جو 11 جون 1978 کو قائم کی گئی تھی اور جس کا آج 43واں یومِ تاسیس منایا جا رہا ہے۔

یہ اُس طلبا تنظیم کی کہانی ہے جس نے اپنی ہی سرپرست اور پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن جانے والی مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو جنم دے کر نہ صرف سیاست میں نئی ریت ڈالی بلکہ ملک کا سیاسی منظر نامہ بھی بدل کر رکھ دیا۔

وہ طلبا تنظیم جس کے قریباً تمام ہی بانی اراکین سیاسی افق پر جگمگائے تو بڑی چمک دمک سے مگر الطاف حسین کے علاوہ کم و بیش تمام نامور بانی اراکین قتل بھی کر دیے گئے۔

یہ وہی اے پی ایم ایس او ہے جس کے ارکان بس اور منی بس کا کرایہ ادا کر کے ایوانوں تک پہنچے اور وفاقی و صوبائی وزرا یا سینیٹر بن کر پارلیمان کی عمارتوں سے باہر نکلے۔

مگر یہ کہانی بھی بہت دلچسپ ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں داخلوں تک سے بھی ’محروم‘ رکھے جانے والے یہ طالبعلم اقتدار کی غلام گردشوں کے ’بادشاہ گر‘ کیسے بن گئے؟

ایک زمانے میں جو طلبا اتنے مجبور تھے کہ اپنے تعلیمی اخراجات تک برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ اتنے بااختیار کیسے ہو گئے کہ پاکستان کی وفاقی و صوبائی حکومتیں اُن کی مرضی سے قائم یا گرائی جانے لگیں؟

سوال یہ بھی ہے کہ مقبولیت و کامیابی کی فقیدالمثال داستانیں رقم کر دینے والی یہ طلبا تنظیم مبینہ قتل و غارت اور جبر و تشدد میں کیسے ملوث ہو گئی؟

یہ کہانی اسی جائزے کی کوشش میں لکھی گئی اور اُن ہی افراد کی گفتگو، رائے اور تاثرات کے ذریعے آپ تک پہنچائی جا رہی ہے جنھیں اپنی رہائش گاہوں سے اسمبلی تک جانے کا راستہ بھی نہیں معلوم تھا مگر جنھوں نے ملک پر حکمرانی کرنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو غریب یا متوسط سمجھی جانے والی آبادیوں میں قائم اپنی گھروں تک چل کر آنے پر مجبور کر دیا۔
محرومی کا احساس اور سیاسی ماحول

ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والی زیادہ تر اُردو بولنے والی کمیونٹی کراچی آ کر آباد ہوئی

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹّو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت 14 اگست 1973 کو قائم ہوئی تھی۔

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار بھٹو نے ملک میں کوٹہ سسٹم متعارف کروایا جس کے تحت اہلِ کراچی کو میرٹ یا قابلیت کی بجائے کوٹے پر ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلوں وغیرہ میں حصہ ملتا تھا۔

سرکاری ملازمت اور تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے قابلیت کی بجائے رہائشی علاقے کو فوقیت دی جاتی تھی۔

کوٹہ سسٹم کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ کراچی یا سندھ کے شہری علاقوں میں چونکہ تعلیم یافتہ اور زیادہ قابل آبادی رہتی ہے اس لیے تمام داخلے یا ملازمتیں کراچی یا سندھ کی شہری آبادی والوں میں ’بٹ‘ جاتی ہیں اور ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔

سنہ 1947 میں تقسیم ہند کے بعد اُردو بولنے والے موجودہ انڈیا کے مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچے تو اُن کی اکثریت بھی صوبہ سندھ کی شہری علاقوں میں سکونت پذیر ہوئی۔

یہ اردو بولنے والی آبادی پاکستان میں مختلف دائیں اور بائیں بازور کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی حامی رہی۔

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے قیام کے لگ بھگ چار سال بعد یعنی پانچ جولائی 1977 کی شب جنرل ضیاالحق نے حکومت کا تختہ الٹ کر پاکستان کی تاریخ کا تیسرا مارشل لا نافذ کر دیا۔

اس فوجی بغاوت کو سیاسی قوتوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے شدید مخالفت اور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بھٹو کے نافذ کردہ کوٹہ سسٹم کے شدید مخالف اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز افراد بھی سندھ کی اُردو بولنے والی شہری آبادی سے تعلق رکھتے تھے۔ اختر رضوی اور رئیس امروہوی کی طرح اس شہری آبادی کے ایک بڑے حصے کا خیال تھا کہ کوٹہ سسٹم جیسی ناانصافیاں اس لیے ہوتی ہیں کہ سندھ کی اُردو بولنے والی آبادی کی اپنی کوئی سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔

تب اختر رضوی اور رئیس امروہوی جیسے ممتاز شہریوں نے ہی دراصل کراچی کے نوجوانوں کو اپنی سیاسی نمائندہ سیاسی تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا اور تنظیم سازی کا ایندھن (یعنی سیاسی مواد اور تربیت) فراہم کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار بھی ان دونوں نے ہی ادا کیا۔

17 ستمبر 1953 کو کراچی میں پیدا ہونے والے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین نے کمپری ہینسیو ہائی سکول عزیز آباد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1974 میں میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملنے پر اسلامیہ سائنس کالج سے مائیکرو بیالوجی میں بی ایس سی کیا۔ جس کے بعد انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ فارمیسی میں داخلہ لے لیا۔

یہاں وہ پہلے طلبا تنظیم ’نیشنل سٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی‘ کے جنرل سیکریٹری اور پھر صدر رہے۔

کوٹہ سسٹم کی وجہ سے پائی جانے والی شدید بے چینی، احساس محرومی، مایوسی اور رئیس امروہوی اور اختر رضوی جیسے بزرگ اہل دانش کی رہنمائی نے الطاف حسین اور اُن کے ساتھیوں میں طلبا کی تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈینٹس آرگنائزیشن (اے پی ایم ایس او) کی داغ بیل ڈالنے کا جذبہ بیدار کیا۔
اے پی ایم ایس او کا قیام

بالآخر 11 جون 1978 کو الطاف حسین نے اپنے ساتھیوں عظیم احمد طارق، عمران فاروق، سلیم شہزاد، طارق جاوید، طارق مہاجر، ایس ایم طارق وغیرہ کے ساتھ اے پی ایم ایس او کی بنیاد رکھی۔

موجودہ رکن قومی اسمبلی اور کم از دو مرتبہ پاکستان کے وفاقی وزیر رہنے والے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اب ایم کیو ایم بہادر آباد (یا ایم کیو ایم پاکستان) کے سربراہ ہیں۔

خالد مقبول صدیقی زمانہ طالبعلمی میں سندھ میڈیکل کالج کے طالبعلم تھے۔

خالد مقبول آٹھ ستمبر 1989 کو اے پی ایم ایس او کے پانچویں مرکزی چیئرمین مقرر ہوئے اور 11 جون 1997 تک اس عہدے پر برقرار رہے۔

خالد مقبول بتاتے ہیں کہ اُس زمانے میں کراچی کی طلبا سیاست ’سرخ‘ (یعنی بائیں بازو کے حامیوں پر مشتمل ترقی پسند) اور ’سبز‘ (یعنی دائیں بازو کے خیالات رکھنے اسلام پسند) حلقوں میں تقسیم تھی۔

ابتدائی کئی برسوں تک الطاف حسین اور اُن کی نومولود تنظیم کو تعلیمی اداروں میں ’سبز‘ حلقے کی شدید بلکہ کئی واقعات میں متشدد مخالفت کا بھی سامنا رہا۔

الطاف حسین اس دوران کئی بار براہ راست تشدد کا نشانہ بھی بنے جس کا ذمہ دار وہ اور اُن کے ساتھی مخالفین کو ٹھہراتے رہے۔

کئی بار انھیں، اُن کی تنظیم اور اس کے اراکین کو تعلیمی اداروں سے زبردستی بیدخل بھی کیا جاتا رہا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کے پہلے میئر اور پھر ایک وقت میں پارٹی کے سب سے سینیئر رہنما سمجھے جانے والے ڈاکٹر فاروق ستار بتاتے ہیں کہ ’تین فروری 1981 تک مخالفین کے سکواڈ نے یونیورسٹی سمیت قریباً تمام تعلیمی اداروں میں ہمارا داخلہ بند کر دیا تھا۔‘

’تعلیمی اداروں میں داخلہ بند ہونے کے دو دن بعد یعنی 5 فروری کو الطاف بھائی نے فیڈرل بی ایریا میں طارق مہاجر کے گھر ہونے والے اجلاس میں کہا کہ ہم مخالفین کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اُن کے پیچھے جنرل ضیا الحق ہیں جن کے ساتھ ریاست کی طاقت ہے۔‘

فاروق ستار بتاتے ہیں کہ اس اجلاس میں یہ بات زیر غور آئی کہ اے پی ایم ایس او کو یہیں اسی اجلاس میں ختم کر دیتے ہیں اور الطاف حسین کے الفاظ تھے کہ ’میں تشدد کی سیاست میں نہیں جا سکتا، کیونکہ ہمارے تو سارے کارکنان اور رہنما مارے جائیں گے۔‘

مگر اجلاس کے شرکا کے جذباتی تبادلہ خیال کے بعد اے پی ایم ایس او کو شہری علاقوں میں لے جانے کا فیصلہ ہوا جس کے بعد سب سے پہلا یونٹ آفاق احمدنے لانڈھی میں بنایا (یاد رہے کہ یہی آفاق احمد آگے چل کر الطاف حسین کے سب سے بڑے مخالف اور ایم کیو ایم حقیقی کے سربراہ بنے۔)

فاروق ستار کے مطابق دوسرا یونٹ خود انھوں (فاروق ستار) نے پی آئی بی کالونی میں اور تیسرا متین یوسف (سابق ڈپٹی میئر کراچی) نے عثمان آباد اولڈ سٹی ایریا میں بنایا۔

چوتھا یونٹ عامر خان (موجودہ رہنما ایم کیو ایم بہادر آباد) نے لیاقت آباد نمبر چار کی فرنیچر مارکیٹ میں بنایا (اور بعد ازاں عامر خان، آفاق احمد کے ساتھ حقیقی بنانے والے دوسرے بڑے رہنما بنے۔)

فاروق ستار بتاتے ہیں کہ سنہ 1983 میں الطاف حسین اپنے بھائیوں کی جانب سے بلائے جانے پر امریکہ چلے گئے۔

خالد مقبول کے مطابق ’الطاف حسین تو مایوس ہو کر ملک سے چلے گئے تھے اور پھر عظیم بھائی (عظیم احمد طارق ایم کیو ایم کے چیئرمین جنھیں یکم مئی 1993 کو قتل کر دیا گیا) نے اے پی ایم ایس او کو دوبارہ جمع کیا۔‘
اے پی ایم ایس او
الطاف حسین، عظیم احمد طارق

18 مارچ 1984 کو جب اے پی ایم ایس او کی قیادت نے مہاجر قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کیا تو الطاف حسین ملک میں موجود نہیں تھے۔

فاروق ستار نے بتایا کہ ’عظیم احمد طارق، سلیم شہزاد ، طارق جاوید اور الطاف بھائی کی ٹیم کے سب لوگ کام کرتے رہے اور الطاف بھائی (بیرون ملک ہونے کے باوجود) عظیم طارق سے رابطے میں تھے۔‘
اے پی ایم ایس او کی ابتدائی کامیابی

15 اپریل 1985 کو جنرل ضیا کی حکومت کو مارشل لا کی سب سے زیادہ مزاحمت کرنے والے صوبہ سندھ میں زبردست سیاسی حمایت حاصل کرنے کا شاندار موقع تب ملا جب کراچی کے وسطی علاقے ناظم آباد کی چورنگی پر ٹریفک کے ایک حادثے میں سرسید گرلز کالج کی ایک طالبہ (بشریٰ زیدی) کی جان چلی گئی۔

طالبہ کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج شام تک لسانی رنگ اختیار کر گیا اور اُردو بولنے والے شہریوں کا احتجاج پبلک ٹرانسپورٹ کے (زیادہ تر) پشتون مالکان کے خلاف محاذ کی صورت میں ڈھل گیا۔

طالبہ کی ہلاکت نے کوٹہ سسٹم اور شہری آبادی کی محرومیوں کی پہلے ہی سے موجود دیگر وجوہات کی وجہ جاری لسانی کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔

تب ’مہاجر نعرے‘ کو وہ سیاسی مقبولیت ملنے لگی جس کی توقع نہ تو خود اے پی ایم ایس او کو تھی اور نہ مخالفین کو۔

اسی اثنا میں الطاف حسین امریکہ سے واپس آ گئے۔

فاروق ستار نے بعض تجزیہ نگاروں کی یہ رائے تو یکسر مسترد کر دی کہ ایم کیو ایم کو مارشل لا نے پیپلز پارٹی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے بنایا۔

فاروق ستار نے انتہائی کھلے دل سے تسلیم کیا کہ ’بنایا جنرل ضیا نے نہیں تھا مگر مارشل لا کے دور میں اگر ہم پروان چڑھ رہے ہیں اور ہمارا سیاسی سفر جاری ہے تو یہ کھلی غمازی ہے کہ ساری توپوں کا رخ پیپلز پارٹی کی جانب ہے۔‘

’وہاں پانچ لوگ جمع ہو جائیں تو دفعہ 144 لگ جائے گی اور ہم علاقوں میں کارنر میٹنگز کر رہے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا۔‘

فاروق ستّارنے تسلیم کیا کہ ’سپیس دی گئی۔۔۔ روم دیا گیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پوسٹر لگانے کے جرم میں پارٹی کی تاریخ کی پہلی گرفتاری بھی میری ہوئی، میں اور ڈاکٹر عمران فاروق (اے پی ایم ایس او رہنما اور ایم کیو ایم کے جنرل سیکریٹری جنھیں 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کیا گیا) گرفتار ہوئے اور بدر اقبال (سابق جوائنٹ سیکریٹری ایم کیو ایم جو بعد ازاں قتل کر دیے گئے) اور اسحق خان شیروانی (سابق چیئرمین اے پی ایم ایس او) گرفتار ہوئے۔‘

’مگر ہم دو دن بعد ضمانت پر رہا ہو کر آ گئے۔ ہم سے بھی صرف یہی جاننے کی کوشش کی گئی کہ پیپلز سٹوڈینٹس فیڈریشن (ذوالفقار بھٹّو کی پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم) سے تو تعلق نہیں۔‘

مگر خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار کی اس رائے سے متفق نہیں کہ الطاف حسین یا اُن کے ساتھیوں کی تنظیم کو جنرل ضیا کی حمایت حاصل رہی۔

’اگر ایسا ہوتا تو پھر پنجابی پختون اتحاد نامی تنظیم بھی تو بنائی گئی، ریاستی سرپرستی تو اس تنظیم کی نظر آئی! جبر کے دور میں اور جبر کی گود میں پیدا ہونے میں بڑا واضح فرق ہے۔‘

’جن حالات کو ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او کی پیداوار سمجھا جاتا ہے دراصل ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او اُن حالات کی پیداوار ہیں۔‘ خالد مقبول صدیقی نے وضاحت کی۔

خالد مقبول نے کہا کہ ’جب ہر شعبہ زندگی میں سندھ کے شہری علاقوں میں آباد مہاجروں سے تفریق برتی جانے لگی اور کوٹہ سسٹم کی وجہ سے مہاجر طلبا کا تعلیمی و معاشی استحصال زور پکڑنے لگا تو مہاجر آبادی خصوصاً طلبا میں بے چینی اور مایوسی بڑھنے لگی۔‘

’نہ تعلیمی اداروں میں داخلہ ملتا تھا نہ سرکاری اداروں میں ملازمت۔‘

خالد بتاتے ہیں کہ ’ستم بالائے ستم یہ ہونے لگا کہ اندرون سندھ کے تعلیمی اداروں میں اگر ان مہاجر طلبا کو بمشکل تمام داخلہ مل بھی جاتا تھا تو جب یہ وہاں پہنچتے تھے تو ان سے نفرت پر مبنی سلوک کیا جاتا تھا اور پھر تعلیمی و معاشی استحصال نے جسمانی تشدّد کی شکل اختیار کر لی تھی۔‘

’مہاجر طلبا کی اسناد چھین کر پھاڑ دی جاتی تھیں۔ انھیں زد و کوب کیا جاتا تھا، اس نے معاملات کو بگاڑ کر رکھ دیا۔‘

ایک اور سابق رکن پارلیمان نے، جو خود بھی اے پی ایم ایس او کے صف اول کے رہنما اور مرکزی کابینہ کے رکن رہے، نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ’میرے زمانے تک اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے طلبا کا 40 فیصد نمبر حاصل کرنے پر بھی کراچی کے داؤد انجینیئرنگ کالج میں داخلہ ہو جاتا تھا جبکہ میرا اپنا داخلہ تو 70 فیصد نمبر حاصل کرنے کے باوجود نہیں ہو سکا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پھر جب ملازمت کا موقع آتا تھا تو مہران انجینیئرنگ کالج کا ایک واجبی سی قابلیت رکھنے والا، جسے آپ انگوٹھا چھاپ ہی کی سطح پر سمجھ لیں، تو بھرتی ہوجاتا تھا مگر ہم 70 اور 80 فیصد نمبر لینے والے شہری علاقوں کے طلبا منھ دیکھتے رہ جاتے تھے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اُس وقت سندھ کے تعلیمی اداروں میں داخل ہوتے ہی سندھی طالبعلم اُردو بولنےوالوں کو چند مخصوص الفاظ ادا کرنے کو کہتے تاکہ شناخت ہو سکے۔

’وہ آپ سے کہتے کہ یہ الفاظ کہو ’ڈحڈھر‘ یا پھر ’ڈھاڈھو‘ یا ’ڈینگو واہ‘ یا پھر ’یائیں‘ (یہ وہ مخصوص الفاظ ہیں جو مخصوص لہجے اور تلفُّظ کے ساتھ صرف سندھی النسل افراد ہی ادا کر سکتے ہیں)۔‘

’جب مہاجر طلبا انھیں ادا نہیں کر سکتے تھے تو پتہ چل جاتا تھا کہ وہ سندھی النسل نہیں ہیں اور پھر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور یہ سب باقاعدہ منصوبہ بندی سے ادارہ جاتی (انسٹیٹیوشنل) انداز سے ہوتا تھا۔‘

اپنے ساتھی کے موقف کی تصدیق کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ’جو اُردو بولنے والے اندرون سندھ رہتے تھے اُن میں یہ احساس پیدا ہو چکا تھا کہ اُن سے مہاجر ہونے (یا سندھی نہ ہونے) کی بنیاد پر تفریق برتی جا رہی ہے اور یہی تفریق و محرومی اے پی ایم ایس او کے قیام کی بنیاد بنی۔‘
اے پی ایم ایس او کی بےمثال مقبولیت

اس ماحول میں الطاف حسین کو مخالفین کی جانب سے بزور جامعہ کراچی سے نکال دیا گیا اور یہی وہ وقت تھا جب اُردو بولنے والے افراد کی آبادیوں میں اے پی ایم ایس او (یا مہاجر سیاست) کا جادو سر چڑھ کر بولنا شروع ہوا۔

مہاجر آبادیوں اور اردو بولنے کی اکثریت رکھنے والوں کے علاقوں اور محلوں کی سطح پر کارنر میٹنگز، علاقائی جلسوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔

مختلف محلوں سے اٹھنے والے یہ جذبات اور اثرات تعلیمی اداروں میں بھی نمایاں ہونے لگے۔

شہر کے کم و بیش ہر محلے کی طرح ہر تعلیمی ادارے میں بھی اے پی ایم ایس او کی پذیرائی اور مقبولیت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ طلبا جوق در جوق اے پی ایم ایس او میں شمولیت اختیار کرنے لگے۔

اُردو بولنے والی برادری میں الطاف حسین، ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او کی حمایت 'جنون' کی شکل اختیار کرنے لگی۔

’یہاں تک ہوا کہ مجھے تو میرے والد نے کہا کہ اب تمہارا داخلہ کراچی یونیورسٹی میں ہو گیا ہے، اب وہاں جا کر اے پی ایم ایس او میں شامل ہو جانا۔ میرا تو کوئی رجحان ہی نہیں تھا سیاست کی جانب، میں تو کھیلوں (سپورٹس) میں دلچسپی رکھتی تھی۔ ایتھلیٹ تھی بہت اچھی۔‘ سابقہ طلبہ رہنما نائلہ لطیف نے مجھے اپنی کہانی سُنانی شروع کی۔

سابق رُکن سندھ اسمبلی نائلہ لطیف آٹھ ستمبر 1989 کو خالد مقبول صدیقی کی کابینہ میں اے پی ایم ایس او کی مرکزی جوائنٹ سیکریٹری مقرر ہوئیں تھیں۔

دیکھنے والوں نے ایسا وقت بھی دیکھا جب نائلہ لطیف کو ملک کی سب سے طاقتور اور مؤثر طالبہ رہنما سمجھا جاتا تھا۔

شہر کے ہر تعلیمی ادارے میں انھیں ’باجی‘ کہہ کر پکارا جاتا تھا اور اُس دور میں جب طلبا سیاست اسلحے، زور زبردستی، غنڈہ گردی اور تشدّد کے الزامات کی دلدل میں دھنسی دکھائی دیتی تھی، کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ ’نائلہ باجی‘ کے سامنے آواز بھی اونچی کر سکے۔

نائلہ بتاتی ہیں کہ ’میں تو سیاست سے واقف تھی اور نہ دلچسپی رکھتی تھی، نہ ہی کوئی رجحان تھا میرا اس طرف۔ مگر جو ماحول شہر میں بن گیا تھا اُس میں شہری سندھ کی اردو بولنے والی مہاجر آبادی اپنے خلاف جاری سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی ناانصافیوں اور استحصال کے ردعمل میں اتنی شدّت اختیار کر چکی تھی کہ خود اپنی آئندہ نسلوں کے نمائندوں یعنی نوجوانوں کو متحرّک کر رہی تھی۔ جیسا کہ میرے والد نے کِیا۔‘

’میرے والد بھی ایک کٹر مہاجر سوچ اپنا چکے تھے اور میرے گھر میں ہر وقت یہی باتیں ہوتی تھیں یعنی شہر کے سیاسی ماحول کی، مہاجروں کے ساتھ ناانصافی کی، استحصال کی۔ مگر تب تک بھی مَیں ان خیالات کی صرف اس حد تک حامی تھی کہ دس روپے کا چندہ ضرور دیا کرتی تھی اور یہی میری سیاسی زندگی کے آغاز کی بنیاد بن گئی۔‘

نائلہ بتاتی ہیں کہ ’ہوا یہ کہ اُس وقت امین الحق (پاکستان کے موجودہ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن) اے پی ایم ایس او کے لیے یونیورسٹی میں چندہ مانگا کرتے تھے۔ میں انھیں چندہ دیتی تھی اور جب انھوں نے مجھے تنظیم (اے پی ایم ایس او) میں شمولیت کی دعوت دی تو میں نے سوچا کہ ہمارے تو والدین خود مجھے اس شمولیت کے لیے ترغیب دیتے ہیں تو وہ بھی خوش ہو جائیں گے اور خیالات بھی گھر کے ماحول کی وجہ سے سیاسی ہوتے جا رہے تھے، تو میں بھی شامل ہو گئی۔‘

’جب مجھے کراچی یونیورسٹی کی کابینہ کا رکن مقرر کیے جانے کا اعلان ہوا تو میری بڑی بہن اور چھوٹے بھائی بھی جامعہ کے طالبعلم تھے اور وہیں موجود تھے۔ وہ تو مجھے جوائنٹ سیکرٹری بنائے جانے پر حیران رہ گئے۔‘

نائلہ لطیف نے بتایا کہ خالد مقبول صدیقی سے پہلے اسحق خان شیروانی اے پی ایم ایس او کے چئیرمین مقرر ہوئے تو امین الحق نے الطاف حسین سے میرا تذکرہ کیا اور پھر مجھے مرکزی جوائنٹ سیکریٹری کے عہدے کی پیشکش ہوئی۔

’مجھے تو تنظیم کے مرکز کا بھی نہیں پتہ تھا۔ بتایا گیا کہ مرکز الکرم سکوائر (لیاقت آباد) میں ہے۔ مجھے تو اپنے گھر سے الکرم اسکوائر جانے کا راستہ تک نہیں معلوم تھا۔ مگر ساتھی رہنمائی کرتے رہے اور رفتہ رفتہ میری تنظیمی وابستگی اس حد تک بڑھ گئی کہ مجھے تو اپنی ذات اور ذاتی زندگی تک کا ہوش نہیں رہا۔‘

’دن رات بس تنظیم اور اُس کا کام۔ بے انتہا مقبول ہوتی تنظیم کے سلسلے میں ہر روز کسی نہ کسی تعلیمی ادارے میں کوئی نہ کوئی سرگرمی ہوتی اور میں اس میں شرکت کرتی۔ میری ہم عمر طالبات ساتھی اور دوست سہیلیاں اپنے دیگر شوق بھی پورے کرتی تھیں عید بقرعید جیسے تہواروں پر لڑکیاں چوڑیاں اور مہندی کے شوق میں ہوتی تھیں اور ہم تنظیم کا کام کرتے رہتے تھے، میری تو کلائیاں چوڑیوں اور مہندی کو ترس گئیں۔‘

’مگر 1989 تک مَیں نے کراچی کے ہر گرلز کالج میں اے پی ایم ایس او کی کابینہ بنا دی تھی۔ سوائے ایک سینٹ جوزف کالج اور علامہ اقبال کالج کے۔ اُس زمانے میں علامہ اقبال کالج میں پنجابی طلبا کی اکثریت تھی تو ہمیں اے پی ایم ایس او کا کام کرنے میں بہت دشواری ہوتی تھی۔‘

’پھر میں نے اے پی ایم ایس کا شعبہ طالبات قائم کیا جس کی نگران شازیہ عابد مقرر ہوئیں اور کہکشاں حیدر (جو اس وقت ایم کیو ایم لندن کی رہنما ہیں) بھی اپوا کالج میں کمیٹی کی رکن تھیں۔‘

نائلہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے جب (سیاسی اتحاد) کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز (سی او پی) کا جلسہ ہوا تو مجھ سے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عمران فاروق نے پوچھا کتنی طالبات آ جائیں گی؟ جب میں نے کہا پانچ ہزار تو اُن کی چیخ نکل گئی، سناٹے میں آ گئے، منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔‘

جیو نیوز سے وابستہ صحافی مظہر عباس بھی بتاتے ہیں کہ پذیرائی تو اتنی ملی کے دوسروں کو تو کیا خود الطاف حسین اور ایم کیو ایم یا اے پی ایم ایس او کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔

انیس قائم خانی پاکستان میں 2013 تک ایم کیو ایم کی تنظیم کے سب سے اعلیٰ رہنما تھے اور پاکستان میں الطاف حسین کے بعد ’نمبر ون‘ کی پوزیشن پر فائز تھے۔

انیس قائم خانی نے بتایا کہ وہ بھی کوٹہ سسٹم جیسے مسائل کی بنیاد پر 1985 میں تمظیم کے رکن بنے تھے۔
اے پی ایم ایس او اور سیاسی ماحول

اب ایک جانب اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم فقیدالمثال مقبولیت حاصل کر رہی تھیں اور دوسری جانب تواتر سے سیاسی پیشرفت اور پرتشدد واقعات رونما ہو رہے تھے۔

اسی اثنا میں بانی پاکستان کے مزار پر ایک مظاہرہ ہوا جہاں پاکستان کا قومی پرچم (جھنڈا) جلانے کے الزام میں الطاف حسین کو گرفتار کیا گیا اور انھیں فوجی عدالت سے نو ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور وہ جیل بھیج دیے گئے۔

آنے والے برسوں میں جب شہری سندھ میں لسانی سیاست شروع ہوئی اور ایم کیو ایم اور اُس کے سیاسی مخالفین کو زبردست نقصانات اور فوائد دونوں کا اندازہ ہوا تو پھر ’علاقہ گیری‘ (یا ٹرف وار) کا آغاز ہوا۔

اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کے ایک سابق رہنما نے بنام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پھر ایم کیو ایم میں یہ سوچ آئی کہ اگر ہمیں مخالفین کی عسکری طاقت کا مقابلہ کرنا ہے تو خود ہمارے پاس بھی ’اپنا ایک عسکری بازو‘ ہونا چاہیے۔

اسی دوران شہر میں لسانی تفریق اور نسلی منافرت پر مبنی کئی بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں ’منشیات فروشوں کے خلاف‘ سہراب گوٹھ کے علاقے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ’آپریشن کلین‘ یا پھر علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی میں فائرنگ سے درجنوں افراد کی ہلاکت جیسے بڑے اور سیاسی طور پر انتہائی اہم سمجھے جانے والے واقعات شامل رہے۔

ایک پپی اِدھر ، ایک پپی اُدھر

ایسے کئی سانحوں کے بعد پشتون اور مہاجر آبادیوں میں شدید لسّانی کشیدگی پھیل گئی جس کا زبردست فائدہ الطاف حسین اور اُن کی تنظیموں یعنی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کو کسی نہ کسی صورت ہوتا رہا۔

ڈر اور خوف کی یہ فضا مہاجر نعرے کی مزید مقبولیت کا سبب بنی اور اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم دونوں ہی کو مضبوط تر کرتی چلی گئی۔
اگست 1986 میں نشتر پارک میں ایم کیو ایم کے پہلے کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے

خالد مقبول کہتے ہیں ’ہماری مقبولیت میں مہاجر نعرے کا کردار ہے جس نے اپنی جگہ خود بنائی مگر ایک کردار بجتے ہوئے کھمبوں کا بھی ہے۔( خالد مقبول نے 1980 کی دہائی میں پرتشدّد واقعات کے دوران مہاجر آبادیوں میں حملے کا خدشہ ظاہر کرنے یا اطلاع دینے کے لیے بجائے جانے والے کھمبوں کی جانب اشارہ کیا۔)‘

’قوموں کو قوم بنانے میں مشترکہ مفادات یا مشترکہ خطرات و خدشات بھی اہم ہوتے ہیں،‘ خالد مقبول نے کہا۔

اپنے عسکری بازو کی ضرورت محسوس ہوتے ہی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم میں شامل ہونے والے عناصر میں متشدد سوچ رکھنے والے حلقے کو غلبہ حاصل ہوا۔

جنرل ضیا کے زمانے میں صرف بلدیاتی انتخابات ہوتے تھے تو اُردو بولنے والی آبادی کراچی کی سیاسی نمائندگی سے محروم بھی تھی۔

اب عام لوگوں کو اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کے ذریعے اپنی سیاسی نمائندگی کی امید بھی نظر آنے لگی۔

ایم کیو ایم نے اس ماحول کا فائدہ اٹھایا اور آٹھ اگست 1986 کو کراچی کے نشتر پارک میں جلسہ منعقد کیا جہاں اُردو بولنے والوں کو شعلہ بیانی پر قدرت رکھنے والے الطاف حسین میں اپنا ایک جارح اور زبردست ترجمان دکھائی دینے لگا۔

جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’نشتر پارک جلسے کی کامیابی نے ہی اُن کے لیے 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں اے پی ایم ایس او کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔‘

خالد مقبول نے کہا کہ ’اپریل 1987 میں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم کبھی بھی انتخابی (پارلیمانی) سیاست میں نہیں جائیں گے مگر ہماری مقبولیت سے خوفزدہ جنرل ضیا حکومت نے ہمارے خلاف آپریشن کر دیا تو ہمیں مجبوراً بلدیاتی انتخابات میں شرکت کرنا پڑی۔‘

’اس وقت اے پی ایم ایس او کی حالت یہ تھی کہ ہم سب یا تو ناتجربہ کار تھے یا پھر کم عمر تو ہمارے پاس تو انتخابی امیدوار کی پہلی شرط یعنی کم از کم عمر 25 سال ہونے والے امیدوار ہی نہیں تھے۔‘

خالد مقبول صدیقی نے بتایا کہ ’نوبت یہ آ گئی کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات میں اپنے کارکنوں کی بجائے ہمدردوں کو انتخابی امیدوار بنایا اور مقبولیت کا یہ عالم تھا وہ سب بھی جیت کر کامیاب ہوگئے۔‘

ان انتخابات میں اے پی ایم ایس او کے جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر فاروق ستار ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر کراچی کے پہلے میئر منتخب ہوئے۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ ’ایم کیو ایم کے بعض اراکین تو بس کے ذریعے بلدیہ کے ایوان آئے بالکل عام آدمی کا انقلاب آتا دکھائی دیا سیاسی افق پر۔‘

ایک سابق رکن اسمبلی نے کہا کہ ’یہی اے پی ایم ایس او کا سب سے 'اچھا وقت' تھا جب اُس کا جوائنٹ سیکریٹری (ڈاکٹر فاروق ستار) کراچی کا میئر اور اُس وقت کا چئیرمین (متین یوسف) زمانۂ طالبعلمی میں ہی ڈپٹی میئر منتخب ہوا ہو۔‘

17 اگست 1987 کو جنرل ضیا، جنرل اختر عبدالرحمن اور دیگر طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد 1988 میں جب بہت طویل عرصے کے بعد ملک میں جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات ہوئے تو الطاف حسین کی ایم کیو ایم نہ صرف کراچی و حیدرآباد کی تمام نشستوں پر فاتح رہی بلکہ سندھ کے کئی دیگر شہری علاقوں میں بھی نشستیں جیت جانے میں کامیاب رہی۔

مگر انتخابات کے بعد ایک بار پھر تشدّد کے کئی واقعات تواتر سے وقوع پذیر ہونا شروع ہو گئے۔

30 ستمبر 1988 کو حیدر آباد پکّا قلعہ کا واقعہ ہو یا پھر الطاف حسین کے قافلے پر سہراب گوٹھ کے قریب فائرنگ، ہر واقعے کے الگ اثرات مرتب ہوئے۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ ایسے واقعات میں حیدرآباد میں قریباً 250 افراد اور بعد میں کراچی میں تقریباً 150 کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔

نتیجہ سیاسی طور پر نکلا اور 1988 کے انتخابات میں سندھ واضح طور پر دو سیاسی حصّوں میں منقسم دکھائی دیا اور شہری سندھ پورا ایم کیو ایم اور دیہی سندھ مکمل طور پر پیپلز پارٹی میں بٹ کر رہ گیا۔

1988 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے سندھ اور وفاق میں مل کر صوبائی اور وفاقی حکومتیں تشکیل دیں۔

اس دوران الطاف حسین کی تنظیمیں یعنی اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم بلا شرکت غیرے کراچی کی تعلیمی، سیاسی، بلدیاتی، انتظامی اور مالی معاملات کی مالک بن گئی اور اس طاقت نے صورتحال کو بہت پیچیدہ بنا دیا۔
تعلیمی ادارے اور شہر تشدد کی زد میں

یہ وہ زمانہ تھا جب پورے ملک خصوصاً کراچی میں دھونس دھمکی طاقت و تشدد کا دور عروج پر پہنچا اور تعلیمی ادارے سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ بن کر رہ گئے۔

کراچی میں پولیس کے ساتھ شہریوں کی مددگار تنظیم سٹیزن پولیس لیژاں کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق سربراہ جمیل یوسف کہتے ہیں کہ 'جتنی بھی سیاسی جماعتیں تھیں اُن سب کے سٹوڈینٹس ونگز (طلبا تنظیمیں) تھے اور کم و بیش یہ تمام دہشت گردی اور غنڈہ گردی میں ملوث تھے۔'

فوج سے بریگیڈئیر کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے صولت رضا تب لیفٹیننٹ کرنل تھے اور سندھ میں فوج کے شعبہ تعلقات عامّہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر تھے۔

بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) صولت رضا نے بھی گفتگو میں تصدیق کی کہ سندھ بھر خصوصاً تعلیمی اداروں میں تو غنڈہ عناصر کا راج تھا۔

’پی ایس ایف اور اے پی ایم ایس او کے یرغمالیوں کا تبادلہ تو میرے ہی سامنےہوا۔ اُس زمانے تک جنرل آصف نواز کور کمانڈر سندھ تھے کہ خبریں آئی کہ دونوں طرف کے لوگ اغوا کر لیے گئے ہیں۔‘

’اُن کے والدین روتے پیٹتے کور ہیڈ کوارٹرز پہنچے تو جنرل آصف نواز نے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ سے اجازت لے کر دونوں جماعتوں کے نمائندوں کو کور ہیڈ کوارٹرز بلوایا۔‘

’مجھے یاد ہے پیپلز پارٹی سے (سابق صدر کراچی) راشد ربانی اور اور ایم کیو ایم سے (رکن قومی اسمبلی) ایس ایم اسلم آئے تھے۔ رات بھر مذاکرات ہوتے رہے اور صبح فجر کے وقت ایمبولینسز میں بچوں (یرغمالی طلبا) کو لایا گیا جنھیں دونوں طرف کے لوگوں نے زبردست تشدد کیا تھا۔‘

’ڈرل مشین (جیسے آلات سے) سے تشدد ہوا تھا۔ پی ایس ایف کے کارکنوں کی پیٹھ پر اے پی ایم ایس او لکھا ہوا تھا اور اے پی ایم ایس او کے کارکنوں کی پیٹھ پر پی ایس ایف لکھا تھا،‘ بریگیڈئیر صولت رضا کے لہجے میں یہ بات بتاتے ہوئے آج بھی عجیب سا تاثر تھا۔

’جنرل آصف نواز بھی رات بھر دفتر میں موجود رہے، جی او سی کراچی بھی تھے، میں میجر تھا میں بھی تھا اور (اُس وقت کے) کمشنر کراچی شاہد عزیز صدیقی بھی تھے۔ جب یہ سب ہو رہا تھا۔‘

پی ایس ایف کے ایک سابق رہنما نے بھی نام ظاہر نہ کرنے پر شرط پر بتایا کہ یرغمالیوں کا تبادلہ دراصل فوج کی صوبائی ہیڈکوارٹرز کے عقب میں واقع ہاکی کلب آف پاکستان میں ہوا تھا۔

دراصل 8 جولائی 1989 کو جامعہ (کراچی یونیورسٹی) میں پی ایس ایف کے تین کارکنوں عزیز اللّہ اُجن ، فیصل اور ہارون رشید کا قتل ہوا تھا۔ ایک ذریعے نے یاد دلایا کہ یہ مقدمہ اے پی ایم ایس او کے خلاف درج ہوا۔

’ایک طالب علم رہنما تھے رضوان جنید، شاعر تھے اُن پر اور شعبۂ فارمیسی کے جواد پر ایک ایف آئی درج کی گئی۔ وجہ یہ تھی کہ یونیورسٹی میں مشہور ہو چکا تھا کہ طلبا یونین کے الیکشن ہونے والے ہیں اور رضوان جنید اے پی ایم ایس او کی جانب سے اسٹوڈینٹس یونین کے صدر کے لیے امیدوار ہوں گے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’صرف اس وجہ سے اُن پر مقدمہ بنایا گیا تاکہ وہ امیدوار نہ بن سکیں اور اے پی ایم ایس او کو الیکشن میں نقصان ہو جائے۔‘

بہرحال کراچی یونیورسٹی میں تہرے قتل کے اس واقعے کے بعد آرٹیکل 147 کے تحت سندھ میں نیم فوجی دستے تعینات کر دیے گئے تھے جو پھر کبھی واپس نہیں گئے۔

پی ایس ایف کے ایک سابق رہنما نے کہا کہ ’جن یرغمالیوں کا آپ پوچھ رہے ہیں اُن میں پی ایس ایف کے 16 کارکن اغوا ہو چکے تھے اور اے پی ایم ایس او کے نو کارکن یرغمال تھے۔ اُن میں ایک کارکن انور بھٹو بھی شامل تھے جو منوڑہ کے رہنے والے تھے اور جنھیں اس قدر تشدد کیا گیا تھا کہ تین ماہ تک تو اُن کی ذہنی حالت متوازن نہیں تھی۔ یہ تبادلہ غالباً اُسی سٹیڈیم (ہاکی کلب آف پاکستان) میں ہوا تھا۔‘

مگر پیپلز پارٹی کراچی کے سابق صدر عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ اُس زمانے میں ایسی خبریں ہم نے بھی سُنی تھیں۔

’ایسا ہوا تو تھا کچھ۔ پہلے تو ہمارے سات آٹھ کارکنان مارے گئے پھر یہ اغوا کا سلسلہ شروع ہوا جب یہ تعداد بہت زیادہ ہوگئی تو پھر ادھر سے بھی کچھ اسی طرح کے واقعات ہوئے ضرور تھے۔‘

عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ’مجھے تفصیلات تو نہیں پتہ مگر یہ بھی معلوم ہوا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام بھی موجود تھے، (مغویوں کے) تبادلے کے وقت۔‘

ایم کیو ایم الطاف حسین سے علیحدہ ہو کر اپنی تنظیم ’وائس آف کراچی‘ بنا لینے والے ندیم نصرت اس وقت الطاف حسین کے پولیٹیکل سیکریٹری (مشیرِ سیاسی امور) تھے جو بعد میں ایم کیو ایم کے کنوینر بھی مقرر ہوئے۔

ندیم نصرت نے بھی یرغمالیوں کے اس تبادلے کی تصدیق کی۔

’یہ کور آفس میں ہوا تھا۔ راشد ربانی اور ایس ایم اسلم دونوں جماعتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ عظیم بھائی (عظیم احمد طارق) نے اس کا نوٹس بھی کیا تھا کیوں کہ اے پی ایم ایس او کو ایسی کوئی ہدایت نہیں تھی کہ ایسی کارروائیاں کی جائیں مگر ظاہر ہے کہ وہ نوجوان تھے۔ تو (جب عظیم طارق نے نوٹس لیا) بہت سے لوگ پھر اے پی ایم ایس او میں معطل بھی کیے گئے تھے۔‘

پولیس، عدالتی نظام اور شہریوں کی جانب سے اس صورتحال پر ہلکی پھلکی موسیقی بھی شروع ہو چکی تھی۔

کئی ایم کیو ایم رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ایسی شکایات بڑھنے پر تنظیمی نظم و ضبط حرکت میں آیا اور مقامی و علاقائی تبدیلیوں کا آغاز ہوا اور دونوں مرکزی جوائنٹ سیکریٹریز آفاق احمد اور عامر خان کو بھی تبدیل کیا گیا۔

آفاق احمد کا مؤقف ہے کہ انھیں الطاف حسین کے مہاجر تحریک سے دستبردار ہونے پر اختلاف تھا اور یہی اُن کے تنظیم سے علیحدگی کی وجہ بنی۔

ایم کیو ایم کا موقف تھا کہ انھوں نے جرائم پیشہ عناصر کو تنظیم سے نکال دیا ہے۔

1991 میں آفاق احمد اور عامر خان کو تنظیم سے خارج کر کے سارا تنظیمی ڈھانچہ توڑ دیا گیا اور کم از کم تین سو کے قریب کارکنوں کی تنظیمی رکنیت معطل کر دی گئی۔

ایم کیو ایم سے نکالے جانے والے یہ دونوں رہنما اور ان کے کئی حامی یا تنظیمی کارکنان و عہدیدار شہر سے چلے گئے یا روپوش ہوگئے۔

یہ ایم کیو ایم میں تب تک کی سب سے بڑی بغاوت تھی۔

اور اسی کے بعد شہر میں زبردست قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور اے پی ایم ایس او ہو یا ایم کیو ایم یا پھر اُن کے مخالفین سب کے سب آنے والی کئی دہائیوں تک تشدد آمیز سیاست کے الزامات کی زد پر رہے۔

ایم کیو ایم میں جرائم پیشہ عناصر کے در آنے کی اطلاعات پر آصف نواز کی قیادت میں فوجی اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف حکومت کو کارروائی کے لیے اُس فوجی آپریشن کا مشورہ دیا جو بعد میں کراچی آپریشن کلین اپ کی نام سے جاری رہا۔

اس آپریشن سے وقتی طور پر ایم کیو اور اے پی ایم ایس او کو سیاسی محاذ پر زبردست نقصانات اٹھانے پڑے۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی کے مشورے پر الطاف حسین لندن چلے گئے، ملک سے چلے جانے کے بعد رفتہ رفتہ پارٹی پر اُن کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی بالآخر اے پی ایم ایس او اور ایم کیو ایم کے اندر بھی زبردست دھڑے بندیاں اور اندرونی سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا۔

نائلہ لطیف کے مطابق ’پھر پارٹی پالیسی میں تضاد آیا آہستہ آہستہ چیزیں خراب ہونے لگیں۔ ایسی خواتین کو پارٹی میں آگے لایا جانے لگا کہ میں کہہ کہہ کر تھک گئی، مگر یہ کہا جانے لگا کہ ان کو تو رکھنا ہے۔ ایسے میں ہم جیسے لوگوں کا دم گھٹنے لگا۔‘

’حالانکہ میں تب بھی سب کی آنکھوں کا تارا تھی، مگر مایوسی اس حد تک بڑھ گئی کہ مجھے فیصلہ کرنا پڑا۔ اور شاید میری کوئی نیکی تھی کہ میں اس دلدل سے نکل گئی۔ آسان نہیں تھا اس دلدل سے نکل آنا۔‘

’جب یہ تاثر قائم ہو جاتا ہے کہ یہاں جرائم پیشہ افراد کو پناہ ملتی ہے تو پھر جرائم پیشہ افراد ہی آتے ہیں۔۔۔ پناہ لینے،‘ نائلہ لطیف نے کہا۔

جب تک ہم انقلابی تحریک تھے جب تک سب صحیح تھا، اب جب نظر دوڑاتے ہیں تو پھر سمجھ میں آتا ہے کہ اگر بہت اچھے ہوتے تو مہاجروں کو حقوق نہ دلوا دیتے؟ نائلہ لطیف نے سوال اٹھایا۔

’ہم نے جانیں بھی دیں، کتنے تباہ برباد ہوگئے، کتنے مارے گئے، کتنے جیلوں میں بند ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اب بھی اپنے گھروں کو نہیں آ سکتے۔ سب کر کے حاصل تو کچھ نہ ہوا نہ۔ مجھے تو اب یہ لگتا ہے کہ میں ’سراب‘ کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔‘

خالد مقبول کہتے ہیں کہ ’گذشتہ دس برس اے پی ایم ایس او کا بدترین دور ہے۔ طلبا سیاست کمزور ہوئی۔ آج بھی اگر آپ دیکھیں اے پی ایم ایس او کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، باقی سب کو ہے۔ ایم کیو ایم کی اپنی غلطیاں بھی ہیں، مشرف صاحب کے دور میں جو کمزوری آئی ہے وہ بھی ہے۔ جنھیں ہم نے نظریاتی بنایا کہ تبدیل ہو جائیں وہ بڑے بڑے عہدوں پر پہنچے تو شاید حالات یا پھر اُن کا ظرف نہیں تھا ، کہ وہ تبدیل ہو جاتے۔ مایّوسی ہے مگر محنت کرنے سے بہتری آئے گی۔‘

خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اے پی ایم ایس او کو دوبارہ ابتدائی زمانے کی طرح فعال کیا جائے۔ ’ایم کیو ایم کی قیادت آخر تک اے پی ایم ایس او سے آتی رہی، ہماری تو تربیت کا ادارہ وہی ہے۔‘

مگر نائلہ لطیف پوری طرح متفق ہیں کہ اب اے پی ایم ایس او کا فعال ہونا یا ’مہاجر نعرے‘ کا مقبول ہونا بہت مشکل ہے۔

اس سوال پر کہ ایم کیو ایم میں تو دھڑے بندی ہوتی رہی مگر اے پی ایم ایس او ہمیشہ ایک ہی رہی نائلہ لطیف نے کہا کہ ’اے پی ایم ایس او؟ رہی کہاں بیٹا۔۔۔؟؟؟‘