Author Topic: کی شرعی حیثیت قطع حیات بہ جذبہٴ رحم (Euthanasia)  (Read 2662 times)

Offline علم دوست

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 1288
  • My Points +2/-1


قطع حیات بہ جذبہٴ رحم (Euthanasia) کی شرعی حیثیت

از:      مفتی محمد شمیم اختر قاسمی   ریسرچ اسکالر: شعبہٴ دینیات (سنی)  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ     

احکام شریعت میں مرض کی رعایت:

          بیماری کی وجہ سے مریض کے ہونے والے خطرات اوراندیشے کا اسلام کو پوری طرح اندازہ ہے۔ اسلام نے شریعت کے احکام کے نفاذ میں اس کی پوری رعایت رکھی ہے۔ چنانچہ نماز جو دین کااہم ستون ہے بیماری کی حالت میں اگر حرکت کرنے سے اس کے مرض میں اضافہ کا خطرہ ہے تو ایسے وقت میں وہ بیٹھ کر یا اشارے سے نماز پڑھے۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی صراحت موجود ہے:

          ”صلی قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلی جنب“․(۳۸)

          جسم کو پاک رکھنے کے لیے غسل ضروری ہے۔ لیکن مرض کی حالت میں پانی کااستعمال اس کے لیے خطرہ کا سبب بن سکتا ہے تو وہ پاکی حاصل کرنے کے لیے تیمم کرے۔ اسی طرح سردی کے زمانہ میں پانی کے استعمال سے مرض بڑھنے یا جسم و جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسے وقت میں نماز ادا کرنے کے لیے پانی سے وضو کرنے کے بجائے تیمم کی اجازت ہے۔(۳۹) حالت سفر میں نہ صرف نماز فرض کے قصر کی اجازت ہے بلکہ وہ روزہ بھی نہ رکھے تو کوئی حرج نہیں، کیوں کہ یہ شارع کی طرف سے رخصت ہے۔ البتہ بعد میں اس کی قضا ضروری ہے۔ رمضان کے مہینہ میں کوئی مریض روزہ رکھنے کی حالت میں نہیں ہے تو وہ اس کی قضا کرسکتاہے۔ قرآن کریم میں اس سہولت پراس انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے:

          وَمَنْ کَانَ مَرِیْضاً اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ، یُرِیْدُ اللّٰہَ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ․ (البقرہ:۱۸۵)

(تم میں سے جو شخص مریض ہو یا سفر کی حالت میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزہ کی تعداد پوری کرے اللہ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے سختی نہیں۔)

حفظان صحت کے لیے محرمات سے بھی استفادہ کیاجاسکتاہے:

          اللہ نے بیماری بھی پیدا کی تواس کا علاج بھی پیداکردیا۔ اور تاکید فرمائی کہ حلال چیزوں کے ذریعہ علاج کرایاجائے۔ مگر بعض وقت ایسا بھی آتاہے کہ مریض کا حلال اشیا کے ذریعہ علاج نہیں ہوپاتا۔ البتہ محرمات کے ذریعہ اس کا علاج آسانی سے ہوجاتا ہے۔ یہی حال حفاظت جان کے لیے حلال چیزیں میسر نہ ہو اور حال یہ ہوگیا ہو کہ اگراسے کھانے پینے کی اشیا نہ ملے تواس کوجان کا خطرہ ہے اوراس وقت اس کے سامنے سوائے حرام اشیا کے کچھ بھی نہیں ہے توایسی بے بسی کے عالم میں اسلام اجازت دیتاہے کہ وہ حرام چیزوں کااستعمال کرکے اپنی جان کو بچالے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا اوراس کی جان ختم ہوجاتی ہے تو اسے خودکشی قرار دی جائے گی اوراس پر خود کشی کے احکام نافذ ہوں گے۔(۴۰) ارشاد باری تعالیٰ ہے:

          فَمَن اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَةٍ غَیْرَ مُتَجَانِفِ لاِّثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (المائدہ:۳)

(جو شخص بھوک سے مجبور ہوکر حرام چیزوں کا استعمال کرے اوراس کا رجحان گناہ کی طرف نہ ہو تواس میں کوئی حرج نہیں، بے شک اللہ معاف کرنے والاہے)

          ایک دوسرے مقام پر حفظان صحت کے لیے مردار چیزوں اور سور کے گوشت کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ قرآن میں ہے:

          اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ الْمَیْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ․ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ․ (البقرہ:۱۷۳)

(اللہ نے تمہارے لیے مراد اور خون اور سور کا گوشت اور جس جانور کو اللہ کے نام کے علاوہ دوسرے کے نام پر ذبح کیاگیا ہو ان کوحرام قرار دیا ہے؛ لیکن اس کے باوجود جو شخص اضطرار کی حالت میں ہو وہ ان میں سے کسی چیز کا استعمال کرسکتا ہے اوراس کا ارادہ نافرمانی اور زیادتی کا نہ ہو تواس میں کوئی گناہ نہیں ہے، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے)

          بعض مواقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ناپاک اشیا کے ذریعہ علاج کرانے کا حکم دیا ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ذکر ہوا ہے کہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور وہ مسلمان ہوگئے۔ کچھ دنوں تک یہ لوگ مدینہ ہی میں مقیم رہے،مگر اس درمیان یہاں کی آب وہو ا ان کے لیے سازگار نہ ہوئی اور وہ بیمار پڑگئے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ سے باہر ایک اونٹ کے چراگاہ میں جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ تم اونٹ کا دودھ اور پیشاب استعمال کرو، اس طرح تم صحت یاب ہوجاؤگے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں چیزوں کا استعمال کیاتو وہ صحت یاب اور تندرست ہوگئے:

          ”عن ان قال قد اناس من عکل او عرینة فاجتووا المدینة فامرہم النبی ﷺ فلقاح وان یسربوا من ابوالہا والبانہا فانطلقوا فلما صحوا“․(۴۱)

          ضرورت ممنوع چیزوں کو مباح کردیتی ہے۔(۴۲) کی روشنی میں علمائے اسلام نے یہ مسئلہ استخراج کیا ہے کہ جو شخص مردار خون اور سور کا گوشت کھانے پرمجبور ہونے کے باوجود اسے نہ کھائے اور وہ ہلاک ہوجائے تو وہ جہنم میں جائے گا الا یہ کہ اللہ اسے معاف کردے۔

          ”وقد قال علماء من اضطر الٰی اکل المیتة والدم ولحم الخنزیر فلم یأکل دخل النار الا ان یعفو اللّٰہ عنہ“․(۴۳)

          علامہ ابوبکر جصاص نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ مضطر کے لیے مردار کا کھانافرض ہوجاتاہے اوراضطرار ممانعت کو ختم کردیتا ہے۔ اس لیے مضطر اگر اسے نہ کھائے اوراس کی موت واقع ہوجائے تو وہ خود اپنا قاتل ہوگا اس شخص کی طرح جس کے مکان میں روٹی اور پانی ہو اور وہ کھانا پینا چھوڑ دے اورمرجائے تواللہ تعالیٰ کا نافرمان اور خودکشی کرنے والاہوگا۔

          ”اکل المیتة فرض علی المضطر والاضطرار یزیل الحرز ومتٰی امتنع المضطر من اکلہا حتی مات صار قاتلا لنفسہ فمنزلة من ترک اکل الخبز وشرب الماء فی حال الامکان حتّٰی مات کان عاصیا للّٰہ جانیا علٰی نفسہ“․(۴۴)

          اسی طرح فقہائے کرام نے علاج کے مسئلہ میں یہ رعایت پیش کی ہے کہ اگرحلال چیزوں کے ذریعہ علاج ممکن نہ ہو اور تحقیق سے یہ بات عیاں ہوچکی ہو کہ مریض کا علاج حرام اشیا کے ذریعہ ہے ہوسکتا ہے توایسی صورت میں حرام چیزوں کا استعمال جائز ہوجائے گا۔(۴۵) نیز کسی مضطر کے سامنے مردار اور دوسرے شخص کا کھانا دونوں موجود ہو، مگر دوسرے شخص کے کھانے کے سلسلے میں اسے شک کا گمان ہو توایسی صورت میں بعض فقہا مردار کھانے کی اجازت دیتے ہیں، بسا اوقات دوسرے کاکھانا نتائج کے لحاظ سے زیادہ ضرر رساں ثابت ہوتا ہے۔(۴۶)

          جن لوگوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہااور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کہ ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی حرام چیز میں تمہاری شفا نہیں رکھی ہے“(۴۷) کو دلیل بناکر حرام چیزوں سے علاج نہ کرنے کی ممانعت کی ہے وہ عمومی کیفیت میں ہے، اضطراری کیفیت سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ جیساکہ اس حدیث کا مطلب رد المحتار میں یہ بیان کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مرض کا علاج رکھا ہے۔اگریہ علاج کسی حرام چیز سے ہو تواس کی حرمت ختم ہوجائے گی اور وہ مباح قرار پائے گی۔ اس لیے کہ اللہ نے کسی حرام چیز میں تمہارے لیے شفا نہیں رکھی ہے۔(۴۸) حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس نفس کو وجود بخشا ہے اس کی حفاظت اوراس کو تندرست رکھنے کی بھی تدبیر بیان کردی ہے،اگر وہ ان تدبیروں سے مستفید نہیں ہوتا تو اپنی جان کو خود ہی ہلاک کرنے والا شمار کیا جائے گاجس کواسلام نے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا ہے۔البتہ اس اجازت کو بلا ضرورت کام میں لانا، ضرورت کی حد سے تجاوز کرنا، غلط استعمال کرنا یہ سب صورتیں ممنوع ہیں۔ شریعت کی جو رخصتیں اور سہولتیں ضرورت کی بنا پر ہوتی ہیں وہ بس ضرورت ہی کی حد تک معتبر ہوتی ہیں، اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔

خودکشی حرام ہے:

          اسلام نے موت کی دعاء کرنے کی ممانعت کی ہے تو پھریہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مصائب و مشکلات اور بیماری وغیرہ سے دوچار ہونے کے بعد انسان کو خودکشی کی اجازت دے دے۔ اگر کوئی شخص خودکشی کرتاہے تو وہ فعل حرام کا مرتکب ہوتا ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہوگی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          اَلْکَبَائِرُ: اَلْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ وَعُقُوْقُ الْوَالِدَیْنِ وَقَتَلُ النَّفْسِ وَالْیَمِیْنُ الْغُمُوْسِ․(۴۹)

(کبیرہ گناہوں میں ہے: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی نفس کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔)

          انسان کتنا ہی متقی اور پرہیز گارہواورکتنی ہی نیکیاں کمائی ہو اور بھلائی کاکام کیا ہو، اگر وہ دنیاوی پریشانیوں اورناکامیوں سے دوچار ہوکر یہ اقدام کرتا ہے تو اس کے سارے اچھے اعمال رائیگاں اور برباد ہوجائیں گے اوراس کاٹھکانہ جہنم کے علاوہ اور کہیں نہ ہوگا۔ موت کا وقت متعین ہے اورجس نے انسان کو پیدا کیاہے وہی اس کا اختیار رکھتاہے کہ کب تک اسے زندہ رہنا ہے اور رہنا چاہیے۔ ارشاد ربانی ہے:

          فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ لاَ یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلاَ یَسْتَقْدِمُوْنَ․ (النحل:۶۱)

(جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ایک ساعت بھی آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔)

          خودکشی کا اقدام مشکلات سے فرار کا راستہ ہے۔ یہ دنیادارالامتحان ہے۔ ہر وقت اور ہر منزل پرآدمی کا واسطہ نئے نئے مسائل سے پڑتا ہے اور وہی شخص اس میں کامیاب ہے جو ہر طرح کی پریشانیوں کا جم کر مقابلہ کرے اور زندگی کی آخری منزل تک پہنچ جائے۔ جو شخص شدائد ومشکلات میں صبر کا دامن چھوڑ بیٹھے اور جلد بازی و بے صبری میں متاع حیات ہی کو ختم کردے وہ موت کے بعد جو اس کی دوسری زندگی شروع ہونے والی تھی کو اپنے ہی کرتوتوں سے درہم برہم کردیا۔ اس دوسری زندگی میں بھی وہی شخص کامران ہوگااوراس کا لطف اٹھائے گا جس نے اس دنیا میں نازک ترین لمحات میں بھی خدا کا بندہ ہونے کا ثبوت دیا اور زندگی کے آخری سانس تک وہ اس پر قائم رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا کو آنے والی دوسری دنیا کا ضمیمہ قرار دیا ہے۔ یہاں جو عمل اچھا یا برا کیاجائے گا اس کا بدلہ اسے دوسری زندگی میں مل کر رہے گا۔ خودکشی بھی ایک غلط اورناپسندیدہ عمل ہے۔ جس سے آدمی کی آخرت خراب ہوگی۔

          روایتوں میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں بڑی شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا اور ہر محاذ پر دشمنوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ اس کی اس بہادری کو دیکھ کر ہر طرف سے تحسین و تعریف ہونے لگی۔ بالآخر وہ لڑتے لڑتے شدید زخمی ہوگیا،اور زخم کی تکلیف برداشت نہ کرسکا تو وہ اپنی ہی تلوار کی نوک اپنے سینے میں پیوست کرلی جس سے اس کی موت ہوگئی۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے اس فعل کی خبر ہوئی توآپ نے اسے جہنمی قرار دیا۔(۵۰)

          اسی طرح حضرت جندب بن عبداللہ بجلی روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے پہلے جو قومیں گزرچکی ہیں، ان میں کے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ اسے زخم لگا وہ اس کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اور چاقو سے اپنا ہاتھ کاٹ ڈالا۔ اس سے اس قدر خون بہا کہ اس میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندہ نے جلدی کی قبل اس کے کہ میں اس کی روح قبض کرتا، اس نے خود ہی اپنے آپ کو ختم کردیا۔ لہٰذا میں نے اس کے لیے جنت حرام کردی:

          ”کان فیمن کان قبلکم رجل بہ جرح فجزع فاخذ سکینا فحزلہا یدہ فما رقا الدم حتی مات قال اللّٰہ عزوجل بادرنی عبدی بنفسہ فحرمت علیہ الجنة“(۵۱)

          خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف خدا کا معاملہ دردناک ہوگا بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھروالے اور عزیز واقارب دوچار ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن و تشنیع کا معاملہ کرتے ہیں اور سماج ومعاشرہ کی ہمدردی سے بھی وہ محروم ہوجاتا ہے۔ خودکشی کرنے والا تو چلا گیا مگر اس کے اس غلط عمل سے ان کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ اگراسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مسلمان کے خودکشی کرنے کی خبر ملی تو آپ برہم ہوگئے اور فرمایا کہ میں اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھوں گا۔(۵۲)

          اسلام نے کسی بھی حال میں خودکشی کی اجازت نہیں دی ہے۔ اندازہ لگائیے جس نے انسان کو پیدا کیا، ماں کے شکم سے لے کر زندگی کے آخری حصے تک اس کی حفاظت ونگرانی فرمائی اور اس نے اپنے بندوں کو سکون و راحت کی نعمت سے سرفراز کیا۔ تو وہی اللہ اپنے بندوں کو مصائب ومشکلات میں مبتلا کرتاہے۔ جب اس کو خوشی ملتی ہے تو وہ عیش کرتا ہے اورجب پریشانی آتی ہے تو وہ اس سے فرار کی راہ اختیار کرتا ہے اور اپنے اوپر موت کو طاری کرتا ہے، یہ کیسی بوالعجبی ہے۔ کچھ لوگ خودکشی کے حق میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ انسان اپنی جان کا مالک ہے اور اسے اختیار ہے کہ وہ اسے ختم کردے یا باقی رکھے۔ مزید طرفہ تماشا یہ کہ بعض مواقع پر تواس عمل کو وہ پسند نہیں کرتے مگر بیماری اور تکلیف کی حالت میں اس عمل کو بروئے کار لانے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں کہ ایسا شخص زندگی کو اس لیے ختم کررہا ہے کہ وہ تکلیف کا باعث بن گئی ہے اوراس کی وجہ سے وہ سخت اذیت محسوس کررہا ہے، وہ معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی حالت میں جب نہیں ہے تو ان سے گریز کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

کسی کی جان کب لی جائے گی؟

          کوئی شخص کسی شدید بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو نہ صرف اس کے قریب ترین رشتہ دار اور احباب کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان کی بیماری کا جو بہتر سے بہتر علاج ہوسکتاہے اور جو اس کی احتیاطی تدابیر ہوسکتی ہیں اسے بروے کارلائے۔ اسی طرح معالج کا بھی فریضہ ہے کہ مریض کی بیماری کو رفع کرنے کی سنجیدہ کوشش کرے۔ایسا نہ ہو کہ اس کی تکلیف کو دیکھ کر اس کے زندہ رہنے کا حق ہی ختم کردے۔ جب کوئی شخص کسی کو ایک لمحہ کی زندگی نہیں دے سکتا تو اسے اس کا بھی اختیار نہیں ہے کہ کسی کی جانب ایک لمحہ پہلے ختم کردے۔ اسلام نے ہر شخص کی جان کو محترم قرار دیا ہے تواس کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ احترام کا معالہ کیا جائے۔ البتہ کسی وجہ سے حالات ایسے ناسازگار ہوجائیں اور کسی نفس کا قتل کرنا ضروری ہوجائے تواس صورت میں اسلام کا موقف یہ ہے کہ سماج کے ایسے ناسور کو ختم کردیا جائے۔ ارشاد ربانی ہے:

          وَلاَ تَقْتُلُوْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحَقِّ․ (الانعام:۱۵۱)

          وہ حالات کیاہیں جن کی وجہ سے انسان کا قتل مباح ہوجاتا ہے اس کی تفصیل قرآن میں یہ بیان کی گئی ہے:

          مَنْ قَتَلَ نَفْساً بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِیْ الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جمیعا ومن احیاہا فکانما احیا الاناس جمیعا․(المائدہ:۳۲)

(جو کوئی کسی نفس کو قتل کرے بغیراس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد پھیلایا ہو تواس نے گویا سب انسانوں کا قتل کیا، جس نے کسی نفس کو زندہ رکھا گویا اس نے سب انسانوں کو زندہ کیا۔)

          فقہائے اسلام نے ان تمام حالات اور مواقع کی تفصیل بیان کردی ہے جس میں بطور سزا یا دیت کے انسان کا قتل روا ہے۔(۵۳)

قطع حیات کے لیے مریض کی رائے قابل اعتبار ہوگی:

          مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں یہ اندازہ بآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ اسلام میں انسان کی جان محترم ہے۔ اس سے اس بات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ جس اسلام نے ہلکی پھلکی تکلیف پر نہ صرف دوا ؤ علاج کو ضروری قرار دیا بلکہ مرض کی تکلیف سے دوچار ہوکر موت کی تمنا کرنے کی بھی ممانعت کردی، اس کے بعد خودکشی کو مصائب ومشکلات سے فرار کی راہ قرار دیتے ہوئے اور سماجی و دینی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں اس کے پیش نظراسے حرام قرار دیا۔ ایسی صورت میں یوتھینیزیا (Enthunasia) پر عمل کرنے کی اسلام کیسے اجازت دے سکتا ہے اوراس سلسلے میں اسلام کی ہمدردی کیوں کرہوسکتی ہے جو بہ جذبہ رحم قتل ہے۔ نہ تو مریض پریشانیوں سے دوچارہوکر اپنی مرضی سے اسے بروئے کار لاسکتا ہے۔ جیسا کہ ہمفری کی رائے ہے اور نہ وہ ڈاکٹر کو اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ پریشانی بسیار کے وقت اس کی جان ختم کردے، تاکہ اسے تکلیف سے نجات مل جائے۔ چہ جائے کہ یہ اجازت ہوش وحواس کی سلامتی کے وقت دے یا بے ہوشی کے عالم میں۔ کسی بھی طرح اس کا یہ اقدام یا اجازت معتبر نہ ہوگی اور اگر وہ خود سے اس عمل کوانجام دیتا ہے تو وہ خودکشی کرنے والا قرار پائے گا اورایسے وقت میں سماج ومعاشرہ کی ہمدردی بھی اس سے ختم کرلی جائے گی۔ خود کشی یا یوتھینیریا پر عمل کرنے سے جو مفاسد سماج ومعاشرہ پر مرتب ہوں گے اسے بہر صورت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ کیوں کہ اس سے نہ صرف لوگوں کا مفاد وابستہ ہے بلکہ یہ سماج اورمعاشرہ کے ساتھ دھوکہ و فریب دینے کی بھی ایک صورت ہے۔ مثلاً یہ کہ کوئی شخص کسی کا قرض لیے ہواہے یا وہ بینک سے بھاری رقم لے چکا ہے جس کو بروقت وہ ادا کرنے کی حالت میں نہیں ہے اور اس کی وجہ سے بعض حدود و قیود کا بھی پابند ہونا پڑے گا۔ پریشانی سے نجات پانے کے لیے مقروض اس عمل کو رازدارانہ طریقے سے بھی انجام دے سکتا ہے اور ڈاکٹروں سے وہ کہہ سکتا ہے کہ چوں کہ میری تکلیف میں کمی نہیں ہورہی ہے اور مرض بھی لاعلاج ہے تو ایسی صورت میں تارحیات کاٹ دیا جائے۔ اسی طرح وہ انسورنش سے بھی قبل از وقت فائدہ اٹھانے کے لیے یہ عمل اختیار کرسکتا ہے۔

          بیماری اور تکلیف ایک اضافی چیز ہے جو ہر ایک کے ساتھ لاحق ہوتی ہے۔ جیسا کہ عرض کیاگیا کہ اسلام میں بیماری کو گناہوں کا کفارہ قرار دیاگیا ہے اور مسلمان بندہ اس تکلیف کو بہ طیب خاطر برداشت کرتا اور اسے عطیہ خداوندی سمجھتا ہے تو آخرت میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ فقہ اسلامی میں یہ اصول موجود ہے کہ المشقة تجلب التیسیر․(۵۴) مشقت اپنے ساتھ سہولت لاتی ہے۔ اسی لیے فقہا نے لکھا ہے:

”اس دنیا میں انسان کی ساری حالتیں مشقت کی ہیں، حتی کہ کھانا پینا اور دوسرے تمام کام مشقت سے خالی نہیں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی قدرت وطاقت دی ہے کہ وہ ان مشقتوں پر حاوی ہے نہ یہ کہ مشقتیں انسان پرحاوی ہیں۔“(۵۵)

          شریعت کے اس اصول کو اگر انسان نے اپنے ذہن میں جگہ دے دی تو وہ زندگی بھر کے مشکلات ومصائب اور تکالیف کو بآسانی جھیل سکتا ہے اور اس طرح نہ خودکشی کا فعل انجام پاسکتا ہے اور نہ ہی لاعلاج اور شدید تکلیف میں مبتلا مریض اپنے لیے موت کو دعوت دے سکتا ہے اور نہ ہی مریض کے رشتہ دار اس کے تار حیات کو کاٹنے کا خیال ذہن وفکر میں لاسکتے ہیں۔ قتل بہر حال قتل ہے چاہے مریض کی مرضی سے کیا جائے یا اس کے احباب کی اجازت سے اور قتل کے لیے چاقو استعمال کیا جائے یا بندوق کی گولی، یا پھر مہلک دوا یا زہریلے مادے۔ ہمدردی کے رشتہ سے کیا جائے یا دشمنی سے۔ ہر صورت میں قتل ہی ہوگا جو قابل مواخذہ ہے۔ اس پس منظر میں مندرجہ ذیل اقتباس قابل ملاحظہ ہے:

”اسلامی نقطئہ نظر سے قتل کا جرم اس وجہ سے ہلکا نہیں ہوتا کہ کسی کو اس کی اجازت سے قتل کیاگیا، کوئی شخص جیسا کہ عرض کیا گیا اپنی ذات کا مالک نہیں ہے۔ اس وجہ سے جس طرح اسے خودکشی کا حق حاصل نہیں ہے،اسی طرح اسے یہ حق بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے فرد کو اپنی زندگی ختم کرنے کی اجازت دے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مضطر اور مجبور انسان کو یہ پیش کش کرتاہو کہ اس کے جسم کا کوئی عضو کاٹ کر کھالے تو وہ اسے کھا نہیں سکتا، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ حالت اضطرار میں بھی انسان کا گوشت جائز نہیں ہے، نہ وہ اسے قتل کرکے اپنا اضطرار دور کرسکتا ہے اورنہ اس کی پیش کش سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، یہ اس احترام کے خلاف ہے جس کا حکم دیاگیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں پیش کش کرنے والے کی ہلاکت کا خطرہ ہے جس طرح مجبور ومضطر شخص کی جان محترم ہے، اسی طرح اجازت دینے والے کی جان محترم ہے۔“(۵۶)

          یہ تصریح دراصل اس خیال کی تردید کرتی ہے کہ جو یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے چاہے تو قطع حیات کراسکتا ہے اور شدید تکلیف میں مبتلاہونے سے قبل وہ اپنے رشتہ دار یا ڈاکٹر کو اس عمل کے انجام دینے کی پیش کش کرسکتا ہے۔ مگر مریض نے شدید تکلیف میں مبتلا ہونے کے دوران یہ پیش کش کی تواس کے متعلق مولانا فرماتے ہیں کہ شدید کرب میں مبتلا شخص ذہنی لحاظ سے اس لائق نہیں ہوتا کہ وہ اپنی موت وحیات کے بارے میں کوئی سنجیدہ فیصلہ کرسکے۔ ایسے مریض بھی ہوتے ہیں جو بولنے اور مافی الضمیر ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بعض آدمی اچانک اس صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں،اس طرح کے افراد زندہ رہیں یا نہ رہیں اس کے فیصلہ کرنے کاحق کس کو دیا جائے ڈاکٹر یا ان کے رشتہ دار کو؛ لیکن ان میں سے کسی کو بھی یہ حق دینا مریض کے حق حیات پر شب خوں مارنے کے ہم معنی ہے۔(۵۷)

قطع حیات کی اجازت کا اختیار مریض کے رشتہ داروں کو حاصل ہے:

          جہاں تک قریبی رشتہ داروں کا تعلق ہے کہ وہ کب تک مریض کی وجہ سے اپنے روز مردہ کے معمولات اور نظام زندگی کو متاثر کریں گے۔ توکیا مریض کی پریشانی اس پریشانی سے زیادہ ہے کہ جب اس کی ماں نے اسے ۹ ماہ اپنے شکم میں رکھا تھا، پھر ولادت کے بعد اسے دوسالوں تک دودھ پلاتی رہی، اس کے بعد بھی پرورش و پرداخت کا سلسلہ بند نہیں ہوجاتا بلکہ یہ سلسلہ اس کی بلوغیت تک جاری رہتا ہے اوراس پرورش پرداخت میں باپ کا جو رول ہوتا ہے وہ سب پرعیاں ہے۔ مرض تو عطاء خداوندی ہے اور جو اس کے اعمال کا کفارہ ہے، اسے یک دم کیوں ختم کرنے کا اختیار ان کے رشتہ داروں کو حاصل ہوسکتا ہے اور کون یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ مریض زندہ ہی نہیں رہے گا یا اس کی تکالیف میں کمی نہ ہوگی یا وہ سرے سے صحت یاب نہیں ہوگا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ جس مریض کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا اور اس کی زندگی کے بارے میں یہ رائے ظاہر کردی کہ مریض نہیں بچے گا باوجود اس کے بعض مریض کی صحت بحال ہوگئی اور وہ زندہ ہیں۔ اس لیے مریض کے رشتہ داروں کو بھی اس کا حق نہیں کہ مریض سے ہمدردی جتاکر اور اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کے لیے مریض کی دوا روک دینے یا آلات تنفس ہٹانے کی اجازت ڈاکٹر کو دے۔ ہمفری نے جو کہا ہے کہ شدید تکالیف کو نہ برداشت کرتے وقت مریض اپنی مرضی سے اس کی اجازت دے، اس میں اس کے رشتہ داروں کو دخل نہ دیا جائے۔(۵۸) جیسا کہ عرض کیاگیاہے کہ تکلیف دہ بیماری میں مبتلا ہونے سے قبل کسے اندازہ ہوتا ہے کہ کل اس پر کیا گزرے گی اوراسے کس طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہونا پڑے گا۔ ایک شخص عمر کے آخری حصے میں ہے باوجود اس کے وہ تندرست ہے اوراچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ یا ایک شخص کمزور و ناتواں ہے مگر شدید تکلیف میں مبتلا نہیں ہے۔ رہی بات جب وہ ناقابل برداشت تکلیف میں مبتلا ہے تو اس وقت وہ اپنی مرضی سے اس رائے کا اظہار کرے تو یہ بھی محال ہے، اس وقت کی رائے اس کی کیوں کر معتبر ہوسکتی ہے۔ آدمی کو اس سے ہلکی تکلیف ہوتی ہے مثلاً وہ پیٹ کے درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اس کو برداشت نہیں کرپاتا اورجزع و فزع کرنے لگتا ہے تو پھر بات آکر رکے گی اس کے رشتہ دار پر کہ اس وقت اس سے زیادہ بہی خواہ ، ہمدرد، اس کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے والے یہی لوگ ہیں وہ اس کے بارے میں بہتر فیصلہ کریں گے کہ اسے زندہ رہنے دیا جائے یا ماردیا جائے۔ اگر انہیں یہ حق دے دیا جائے تو کتنے مفاسد سے سماج دوچار ہوگا اس کا اندازہ مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:

”یہاں اس پہلو کو کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ انسان مفاد کا بندہ ہے۔ مسائل پر سوچتے وقت خودغرضی اس پر چھاجاتی ہے۔ لہٰذا یہ کچھ بعید نہیں ہے کہ وہ مریض کی خدمت سے نجات پانے کے لیے اور اس کے مال و دولت پر جلد از جلد قبضہ کرنے کے لیے اسے ختم کردے۔ اسے مریض کی صحت اور زندگی سے زیادہ اسے دنیا سے رخصت کرنے کی فکر بھی ہوسکتی ہے۔ اس صورت میں ناقابل علاج مریض کے رشتہ داروں کو اس کی زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے کا حق دینے سے بڑی پیچیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس سے بہت سے قابل علاج مریض بھی ناقابل علاج قرار پاسکتے ہیں اورمریض ناقابل برداشت ہونے سے پہلے ہی اس دنیا کو چھوڑنے اور سفر آخرت اختیار کرنے پر مجبور ہوسکتے ہیں۔ اسی خطرہ کے پیش نظر اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ القاتل لایرث یعنی قاتل مقتول کی وراثت کا حق دار نہ ہوگا۔ اس حدیث کے الفاظ عام ہیں، اس لیے امام شافعی اور فقہائے احناف نے یہاں تک کہا ہے کہ غلطی سے بھی اگر کوئی شخص کسی کو قتل کردے تو اس کا وارث نہ ہوگا۔“(۵۹)

          اس سلسلہ میں یہ مسئلہ بھی بڑا ہی اہم ہے کہ لاعلاج بیماری میں مبتلا شخص کی مالی حیثیت بہت کمزور ہے جس کی بنا پر وہ شدید تکلیف دہ پریشانی سے نجات پانے کے لیے مہنگا علاج نہیں کراسکتا۔ یہی حالت اس کے رشتہ داروں کی بھی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا کسی بھی طرح علاج نہ ہوسکے گا۔ ایسے وقت میں اسلام میں اس مریض کے ساتھ کیا رعایت برتی گئی ہے، یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کیا وہ یوتھینیزیا پر عمل کرکے آسانی سے اپنے اوپر موت طاری کرسکتا ہے۔ کیا یہ شقاوت نہ ہوگی؟

          معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا واقعہ تو کم ہی رونما ہوتا ہے۔ اسپتال میں سارے مریض ایسے نہیں ہوتے اور نہ سارے مسلمان اس طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہمدردی کے جذبہ کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ نوبت نہیں آسکتی۔ جب مسلمانوں کو امت محمدیہ کہلانے کا اعزاز حاصل ہے اور وہ اس کا دم بھرتے ہیں اور سارے مسلمانوں کو اپنا بھائی تصور کرتے ہیں تو دوسرے بھائی کو یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ میرا ایک بھائی بستر مرض پر موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہے اور تکلیف سے ایڑیاں رگڑ رہا ہے صرف اس وجہ سے کہ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں محلہ و پڑوس کے لوگ اوراس سے آگے بڑھ کر ثروت و دولت والے مسلمان بھائی کے لیے ضروری ہے کہ سب مل کر اس کے دواؤ علاج کی فکر کریں اورانہیں تڑپتا ہوا نہ چھوڑیں۔ تبھی جاکر مسلمان امت محمدیہ کا صحیح دم بھرنے والے ہوں گے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:

          اِنَّمَا الْمُوٴْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْ اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ․ (حجرات:۱۰)

          قرآن کریم میں اصلاح اور فساد کی اصطلاح بڑی معنی خیز ہے اورجسے بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ اس میں وہ سب چیزیں داخل ہیں کہ جس سے سماج اور معاشرہ میں خرابی آتی ہے اس کی اصلاح کی جائے۔ مریض کے ساتھ ہمدردی اوران کا تعاون کرنا بھی تو صلاح میں داخل ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے تو فرمایا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے اس طرح ہیں جیسے جسم کا کوئی عضو کہ اگر جسم کے کسی حصہ میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس تکلیف سے سارا جسم متاثر ہوتا ہے، آنکھوں کی نیند ختم ہوجاتی ہے اور جسم حرارت و بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

          تَرَی الْمُوْمِنِیْنَ فِی تَرَاحُمِہِمْ وَتَوَادُہمْ وَتَعَاطُفِہِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اَشْتَکَی عَضْواً تَدَاعَیی لَہ سَائِرُ جَسَدِہ بِاَسْہَرِ وَالْحَمْیِ․ (۶۰)

          اگر یہ تصور عام ہوجائے تو انشاء اللہ یہ نوبت ہی نہیں آئے گی کہ ایک مسلمان قبل از وقت ہی روپے کی مجبوری کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلا گیا۔

کیا ڈاکٹر کو قطع حیات کی اجازت ہوگی؟

          ڈاکٹر کا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ وہ مریض کے ساتھ ہم دردی کا معاملہ کرے،اس کی بیماری کو سمجھے اور ہر ممکن مریض کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ ایسا نہ ہو کہ ذراسی حالت نازک ہوئی اوراس نے ہمت ہاردی اور بڑی آسانی سے یہ رائے ظاہر کردی کہ اس کا علاج ناممکن ہے۔ یا پھر تکلیف میں مبتلا شخص کی خواہش سے یا اس کے احباب کی اجازت سے کسی تدبیر کے ذریعہ اسے موت کی نیند سلادے۔

          اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس رائے کا اظہار تو کرسکتا ہے کہ مریض قابل علاج ہے یا لاعلاج، اس کی صحت کی توقع کی جاسکتی ہے کہ نہیں؛ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ مریض کو زندہ رہنے دیاجائے یا نہیں۔ اگر ڈاکٹر مریض یا اس کے رشتہ داروں کی اجازت سے مریض کی حیات کو ختم کرتا ہے تو اسلامی نقطئہ نظر سے اس کا اقدام قابل مواخذہ ہے اوراس سے قصاص لیا جائے گا۔ قتل چھڑی سے کیا جائے یا بندوق کی گولی سے، یا تلوار سے یا زہریلی دوا پلاکر یا زہریلے انجکشن کے ذریعہ۔ تمام صورتوں میں اس اقدام کو قتل پر محمول کیا جائے گا۔(۶۱) فقہا نے لکھا ہے اگر کسی شخص کو قتل کرنے پر مجبور بھی کیا جائے اوراس میں خود اس کی جان جانے کا بھی خطرہ ہو تو اسے قتل نہیں کرنا چاہیے ورنہ وہ بھی گنہ گار ہوگا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں مجبور کرنے والا قاتل متصور ہوگا اوراس سے قصاص لیا جائے گا۔ لیکن امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ قتل پر مجبور کرنے والا اور عملاً قتل کرنے والا دونوں ہی قاتل ٹھہریں گے اور دونوں سے قصاص لیاجائے گا۔(۶۲)

          بیماری اور صحت یہاں تک کہ موت وحیات کا اختیار اللہ ہی کو ہے۔ اس نے علاج ومعالجہ کے لیے ڈاکٹروں کو ذریعہ بنایا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی ساری صلاحیت اور تجربات کو اس کے علاج کے لیے آخر تک صرف کرتا رہے جب تک کہ اس کی زندگی باقی ہے۔ اگرمریض کی صحت فوری طور پر بحال نہیں ہوتی ہے تو وہ مریض کی صحت کے تعلق سے مایوس نہ ہواور نہ مریض کے رشتہ داروں کو مایوس اور حراساں کرے۔ ایسا نہ ہو کہ مریض کی صحت نے نازک رخ اختیار کیا اور دوانے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تو وہ ہمت ہار کر اس کے علاج سے الگ ہوگیا جس کی وجہ سے مریض کی تکلیف میں افاقہ کی جو بھی ٹوٹی پھوٹی امید تھی وہ بھی فوت ہوگئی اور مریض ایڑی رگڑ رگڑ کر مرگیا۔ ایسی حالت میں ڈاکٹروں سے مریض کا رشتہ مشکوک ہوکر رہ جائے گا جو کسی دوسرے بڑے سانحہ سے کم نہ ہوگا۔ جیساکہ مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیں:

”طب کا مقصد انسان کی زندگی کو بچانا اوراسے آرام پہنچانا اب تک رہا ہے اور یہی اس کا مقصد ہے۔ انسان کی زندگی کو ختم کرنے کے لیے اس کا استعمال اس کے مقصد ہی کو بدل کر رکھ دے گا۔ اس کی بعض صورتیں بڑی معصوم معلوم ہوتی ہیں اور مصیبت زدہ انسانوں کی ہمدردی کی شکل میں ہمارے سامنے آرہی ہیں؛ لیکن اس کے بڑے خطرناک نتائج رونما ہوسکتے ہیں۔ صاف بات ہے کہ اگر یہ تصور پیدا ہوجائے کہ مریض کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے تواسے بچانے کی کوشش کم زور پڑے گی اوریہ طبی دنیا کے لیے کسی سانحہ سے کم نہ ہوگا۔“(۶۳)

          جہاں تک لاعلاج بیماری میں مبتلا مریض کی نئی اضافی تکلیف کا سوال ہے کہ اس کا علاج کیاجانا چاہیے یا نہیں کیوں کہ وہ پہلے سے ہی مہلک بیماری میں مبتلاہے۔ اس نئی بیماری کے علاج سے اس کی صحت پر کوئی اثرپڑنے والا نہیں ہے۔ یہ تو یقینی نہیں ہے کہ اس اضافی بیماری سے اس کی صحت پرخاصا اثر پڑے گا؛ مگر یہ یقینی ہے اس اضافی بیماری کے علاج سے اوراس کی تکلیف کے انسداد سے اس کی پہلے والی بیماری کی تکلیف میں کمی ہوگی۔ کبھی کبھی چھوٹی بیماری بڑی بیماری کا پیش خیمہ ہوتی ہے، یعنی یہ اس اضافی تکلیف کے ختم ہونے سے پہلے والی بیماری ختم ہوجاتی ہے، جیسا کہ اطبا کا خیال ہے۔ ہر نئی بیماری کا پہلی بیماری یا تکلیف سے تعلق ہوتا ہے۔ کبھی ڈاکٹر پہلے واقع ہونے والی بیماری کا علاج نہیں کرتا، بلکہ بعد میں ہونے والی ہلکی پھلکی تکلیف کا علاج کرتا ہے اوراس طرح اس اضافی تکلیف میں افاقے کا اثر ماقبل بیماری میں مفید ہوتا ہے۔

(باقی آئندہ)

 



میں بہت عظیم ہوں جو کہ بہت ہی عظیم علمی کام کررہا ہوں

Offline علم دوست

  • Editorial board
  • Hero Member
  • *****
  • Posts: 1288
  • My Points +2/-1


قطع حیات بہ جذبہٴ رحم (Euthanasia) کی شرعی حیثیت


از:      مفتی محمد شمیم اختر قاسمی   ریسرچ اسکالر: شعبہٴ دینیات (سنی)  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ     

(۱)

         جب کبھی کوئی آدمی شخصی یاگھریلوں الجھنوں، سماجی ذمہ داریوں سے دوچار ہوتاہے، یا اپنے حسب منشا اعلی عہدہ ومنصب کے حصول میں ناکام ہوتا ہے تو وقتی طور پر اسکا رنج اسے بہت ہوتا ہے۔ اسی کرب میں بعض آدمی خودکشی بھی کرلیتا ہے، تاکہ اس کا واسطہ آئندہ مزید ناکامیوں و نامرادیوں سے نہ پڑے۔ اس نامناسب اقدام کو کسی بھی سماج ومعاشرہ میں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھاجاتا۔ اسلام بھی اس عمل کو حرام قرار یتاہے۔ ایسا کرنے والوں کا ٹھکانہ سوائے جہنم کے اور کہیں نہیں ہے۔ جب کہ ملکی قانون میں یہ اقدام بذات خود کوئی برا نہیں ہے اورنہ قابل مواخذہ ہے کیوں کہ ہر شخص اپنی ذات کا مالک ہے اور وہ اس میں تصرف کرنے کا پورا اختار رکھتا ہے۔ البتہ اقدام خودکشی کو ضرور جرم قرار دیاگیا ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی شخص خودکشی کا اقدام کرے اور کسی وجہ سے وہ اس میں ناکام ہوجائے تو ایسی صورت میں اسے سزاد ی جائے گی۔

یوتھینزیا (Euthanasia) کیا ہے؟

          اسی کے زیر اثر اب یہ رجحان بھی بڑھتا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص پیدائشی طور پر لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے یا عمر کے کسی بھی حصے میں وہ لاعلاج اورمہلک بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے اوراسکی حالت مثل مردہ کے ہوجاتی ہے جو خود سے اپنا کوئی کام نہیں کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کے جسم پرجو مکھی بیٹھی ہوئی ہے اسے بھی وہ بھگا نہیں سکتا ہے۔ اس کی ساری ضرورتوں کی تکمیل اس کے قریب ترین رشتہ دار انجام دیتے ہیں۔ تکلیف بھی اتنی شدید ہے کہ مریض ہر وقت کراہتا اور ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے۔ اس کی تکلیف اس کے رشتہ داروں سے دیکھی نہیں جاتی اور اس کی وجہ سے اس کے احباب ہر وقت ہراساں و پریشان رہتے ہیں۔ اسی طرح بعض مریضوں کی تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے دوا اورآلات کے ذریعہ مستقل طور پر بے ہوشی میں رکھا جاتا ہے۔ اس صورت میں اگر ان تدبیروں کو بروئے کار نہ لایا جائے تو مریض کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور اس کی تکلیف میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں مریض خود یا اس کے قریبی رشتہ دار چاہتے ہیں کہ ایسے مریض کا زندہ رہنا نہ رہنے کے برابر ہے تو کیوں نہ اسے مناسب تدبیر کے ذریعہ موت کے آغوش میں پہنچادیا جائے۔ اس طرح سے مریض کو بھی ناقابل برداشت تکلیف سے نجات مل جائے گی اوران کے احباب کو بھی پریشانیوں سے چھٹکارا مل جائے گا جو مریض کی دیکھ بھال اور اس کی خدمت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اسی عمل کو جدید علم طب میں یوتھینزیا (Euthanasia) کہا جاتا ہے۔ یعنی قطع حیات بہ جذبہٴ رحم جس کے لیے Mercy Killing کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ جب کہ ڈکشنری میں اس لفظ کے معنی یہ بیان کیے گئے ہیں:

          "Frequently interprete as the painless killing of a person sufring from an incureble disiase"(۱)

یوتھینزیا (Euthanasia) کی قسمیں:

          عام طور سے یوتھینزیا (Euthanasia) کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں: عملی (Active) غیر عملی (Passive) (۲) دونوں کا تھوڑے سے فرق کے ساتھ ایک ہی مطلب ہے، یعنی قطع حیات بہ جذبہٴ رحم۔

          عملی (Active) یوتھینزیا کا مطلب یہ ہے کہ اگرکوئی شخص کسی مہلک بیماری مثلاً کینسر یا دماغی بخار یا پھر طویل بے ہوشی میں مبتلا ہوجائے اور ڈاکٹروں نے اس کی بیماری کو لاعلاج قرار دے دیا ہو اوراس کی بقاء زندگی کی بھی کوئی توقع نہیں۔ باوجود اس کے تکلیف بھی اتنی شدید کہ وہ ہروقت بے چین اور ایڑیاں رگڑتا رہتا ہے، ہر طرح کی احتیاطی تدابیر اور دواؤعلاج کے باوجود بھی اس کے تکلیف کے ازالہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی؛ البتہ مصنوعی آلات کے ذریعہ اس کی سانس کو برقرار رکھا گیا ہے۔ ایسی صورت میں مریض کی تکلیف کی شدت کم کرنے کے لیے تیز ادویہ زیادہ مقدار میں دے دی جائیں تاکہ اس کی سانس رک جائے، یا پھر مصنوعی آلات تنفس اس سے ہٹالیا جائے اور وہ آسانی سے موت کی آغوش میں چلا جائے۔

          غیرعملی (Passive) میں شدید تکلیف میں مبتلا شخص کو مارنے کی کوئی ترکیب نہیں کی جاتی؛ بلکہ مریض کو زندہ رکھنے کے لیے جوادویہ یا آلات استعمال کیے جاتے ہیں اسے روک دیا جائے تاکہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنی موت آپ مرجائے اوراس طرح مریض کو شدید تکلیف سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ اس طرح اس کے قریبی رشتہ داروں کو بھی مریض کی وجہ سے جن پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے ا س سے انہیں چھٹکارا مل جائے۔

لاعلاج بیماری میں اضافی تکلیف:

          اس کے علاوہ ایک تیسری نوعیت جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ مریض پیدائشی طور پر یاوقتی طور پر کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے مثلاً دماغی بخار، پولیو، نمونیہ، کینسر، یا شید بڑھاپا یا اپاہج وغیرہ جو بذات خود مہلک اور تکلیف دہ بیماریاں ہیں، جن کا ڈاکٹروں کی تشخیص کے مطابق کوئی علاج نہیں۔ ایسی صورت میں وہ کسی دوسری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے تو کیا ایسی صورت میں اس نئی بیماری کا علاج کرایا جائے یا نہیں، جب کہ وہ پہلے سے ہی لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے اور اس نئی بیماری کے علاج سے شفایابی کے باوجود اس کی صحت پر کوئی خاص اثر پڑنے والا نہیں ہے۔

یوتھینزیا (Euthanasia) سے متعلق مریض کوئی بھی ہوسکتا ہے:

          یوتھینزیا (Euthanasia)سے متعلق مریض کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ مثلاً ایک بچہ پیدایشی طور پر مفلوج اوراپاہج ہے، یا بعد میں وہ کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگیا، جس کا علاج زندگی کے کسی حصے میں بھی ممکن نہیں، پوری زندگی اسے بستر مرض پر پڑا رہنا پڑے گا۔ اپنے قریبی رشتہ داروں کے رحم وکرم پر وہ کسی طرح زندہ ہے۔ اسی طرح عمر کی ساری منزلیں بہت اچھی طرح سے گزارنے کے بعد آخر میں جب اس پر بڑھاپا طاری ہوا تو اس کی صحت بہت خراب ہوگئی وہ اس لائق بھی نہیں رہا کہ اپنی کسی بھی ضرورت کی خود سے تکمیل کرسکے، اس کے حواس بھی اس قدر مختل ہوگئے کہ اچھے برے کی تمیز بھی جاتی رہی، تکلیف اور پریشانی کا غلبہ اس حد تک ہے کہ وہ ہر وقت تڑپتا اور چیختا چلاتا رہتا ہے۔ دوا سے بھی اس کی تکلیف کم نہیں ہورہی ہے۔ اس صورت میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے مریض کو مناسب تدبیر کے ذریعہ قبل از وقت ماردیا جائے تاکہ خود مریض اوراس کے متعلقین کے حق میں زیادہ تکلیف اور پریشانی کا باعث نہ ہو۔

اس طرح کا اقدام تاریخ کے کسی دور میں کیاگیا ہے؟

          یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مرض کی بھیانک صورتیں ہر عہد اور زمانے میں رونما ہوئی ہیں اور تکلیف کی حدوں کو پار کرنے کے باوجود بھی ناقابل علاج مریضوں کو ہرممکن زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی تھیں۔ چہ جائے کہ وہ اپنی موت آپ کیوں نہ مرجائے۔ دانستہ طور پر مریض یا اس کے متعلقین کے ذہن میں اس طرح کا تصور نہ پیدا ہوتا تھا کہ لاعلاج مریضوں کو مناسب تدبیر کے ذریعہ قبل از وقت موت کے آغوش میں پہنچادیا جائے۔ جب کہ پچھلے چند سالوں سے اس کی آوازیں بلند ہورہی ہیں اور یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ یہ عمل تو مریض کے حق میں ہمدردی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برطانوی شہنشاہ جارج پنجم کے ساتھ ۱۸۶۵/ میں اسی عمل کے ذریعہ موت کی نیند سلادی گئی، باوجود اس کے اس عمل میں تیزی نہیں آئی تھی۔

یہ آواز کب سے بلند ہورہی ہے:

          کہا جاتا ہے کہ Derek Humpry کی بیوی ۱۹۸۰/ سے کچھ پہلے کینسر کی بیماری میں مبتلا ہوئی، جسے ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا۔ اس بیماری میں ہر وقت وہ تڑپتی اور بلکتی رہتی تھی۔ جب تکلیف اپنی حدوں کو پار کرگئی اوراسے برداشت کرنے کی طاقت نہ رہی تو اس کی بیوی نے اپنی مرضی سے ایک معاہدہ کے تحت اپنی جان مناسب تدبیر کے ذریعہ ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ چنانچہ زہریلی شراب پلاکر اس کی جان ختم کردی گئی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ اس پریشانی سے نجات پاگئی۔ اس حادثہ کا Derek Humpry پر خاصا اثر پڑا اور اسی دن سے وہ یوتھینزیا (Euthanasia) کا وکیل بن گیا۔ بیوی کے انتقال کے کچھ دنوں بعد اس نے دوسری شادی کرلی اور دونوں میاں بیوی نے مل کر جگہ جگہ اس کی ترجمانی اور وکالت کی۔ اس موضوع پر اس نے باضابطہ ایک کتاب لکھی جس کا نام اس نے جینس وے (Jen's Way) رکھا۔ پھر ۱۹۸۰/ کے قریب اس کی دوسری کتاب Let me die befor i Wake منظر پر آئی۔ اسی موضوع پر اس نے تیسری کتاب لکھی جس کا نام The right to die under standing Euthanasia رکھا۔ اس کی یہ ساری کتابیں خاص طور پر امریکہ میں خوب پڑھی گئیں جسے اس نے عوام میں مقبول بنادیا۔ ان کتابوں کی آمدنی سے اس نے Hemlock Sosiety بھی قائم کی جہاں لاعلاج اور ضعیف العمر مریضوں کے لیے یوتھینزیا (Euthanasia) پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔ اس سے اس کا مدعا یہ تھا کہ جو لاعلاج مریض بڑی تعداد میں اسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں اورجو برائے نام زندہ ہیں وہ اس عمل کے ذریعہ جان ختم کرکے مرض کی شدت سے نجات پاسکیں۔ Derek Humpry نے جو سوسائٹی قائم کی اس کے ممبر صرف امریکہ میں ۱۵ہزار ہیں اوران میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو پچاس برس کی عمر کو پار کرچکے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر وہ عورتیں ہیں جو اپنے قریبی رشتہ دار مریض کو دیکھ کر متاثر ہوئی ہیں۔ اسی کے زیر اثر یورپی ممالک میں ۳۰ سوسائٹیاں قائم ہوئیں جن میں تین سو سائٹی امریکہ میں ہیں۔ ان میں دو تہائی تعداد Active Euthanasia پر یقین رکھتی ہے۔(۳)

          Derek Humpry نے جس یوتھینزیا (Euthanasia) کی وکالت اور حمایت کی ہے وہ Pasive Euthanasia ہے۔ یعنی یہ کہ تکلیف دہ بیماری کی تکلیف کم کرنے کے لیے اوراس کی سانس کو برقرار رکھنے کے لیے جوادویہ یا آلات استعمال کیے جاتے ہیں وہ روک لیے جائیں اوراس کی دوا بند کردی جائے تاکہ مریض سکون سے دنیا سے رخصت ہوجائے۔(۴)

اس کا اثر دوسرے ممالک میں:

          جب یوتھینزیا (Euthanasia) مغربی ملکوں میں مقبول ہونے لگا تواس کا اثر دوسرے مشرقی ممالک میں بھی پڑا اور کچھ لوگوں کی آواز اس کی حمایت میں بلند ہوئی۔ ہندوستان میں مینومسانی جیسے لوگ اس کی وکالت کرنے لگے۔ ان کی صدارت میں Society for right to die with degnity قائم ہے اور ایسے ہی لوگوں کے زیراثر مہاراشٹر اسمبلی میں ۱۹۸۵/ میں Passive Euthanasia کی حمایت میں ایک غیرسرکاری مسودہ قانون پیش کیاگیا اوراسے رائے عامہ معلوم کرنے کے لیے گشت کرایاگیا۔ جیسا کہ مولانا جلال الدین عمری کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کی وضاحت ہوتی ہے:

”Passive Euthanasia کی تائید میں مہاراشٹر اسمبلی میں ۱۹۸۵/ پروفیسر S.S.Varde نے ایک غیرسرکاری مسودہ قانون پیش کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ جو مریض ڈاکٹروں کی رائے میں کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوں کہ اس کا بچنا ممکن نہ ہو، اسے کوئی ایسی جراحت پہنچی ہو اور وہ بحالت ہوش اپنی آزاد مرضی سے اس خواہش کا اظہار کرے کہ دواؤں کی مدد سے اس کا عرصہ حیات طویل نہ کیا جائے تو اس کے معالجوں کو اختیار ہوگا کہ وہ ایسی دوائیں دینا بند کردیں جو اس کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھ سکتی ہیں، تاکہ وہ جلد اس تکلیف سے نجات پاسکے۔ اس صورت میں اس کے معالجین پر کوئی دیوانی یا فوج داری ذمہ داری عائد نہ ہوگی۔ اس مسودہ قانون میں اس کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگرکوئی شخص چاہے تو بحالت صحت اپنی اس خواہش کو قلم بند کردے کہ آئندہ کبھی وہ اس نازک صورت حال سے دو چار ہو تو اس کے ساتھ یہ عمل کیا جائے۔“(۵)

اس عمل کو بروئے کارلانے میں حرج ہی کیا ہے؟

          مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یوتھینزیا Euthanasia کے عمل کو بروئے کار لانے میں لاعلاج اور شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی کا پہلو مضمر ہے۔ سماج میں ہر شخص ایک دوسرے سے محبت کرتا ہے، اس کے دکھ درد میں کام آتا ہے،اچھے برے دنوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معاملہ کرتا ہے۔ ایسی صورت میں لاعلاج مریضوں کو وہ تڑپتا ہوا کیسے دیکھ سکتا ہے، تو پھر کیوں نہ بہ جذبہ ہمدردی موت کی نیند سلادے، تاکہ نہ مریض زیادہ تکلیف اور پریشانیوں سے دوچار ہو اور نہ اس کے متعلقین۔ اس کے علاوہ اس کے علاج پر جو روپے خرچ ہورہے ہیں وہ محفوظ بھی رہ سکیں۔ اگرمریض یا اس کے قریبی متعلقین کی مرضی سے اس عمل کو بروئے کارلایا جائے تو بظاہر اس میں کیا قباحت ہے؟

اسلام اس عمل کو اختیار کرنے کی اجازت دیتا ہے:

          لیکن اسلامی پہلو سے اس ہمدردی پرغور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگراسلام میں اس کی اجازت ہوتی تو پھر وہ خودکشی جیسے اقدام کو ناجائز اورحرام نہ ٹھہراتا۔ یوتھینزیا Euthanasia پر عمل کرنے سے جن مفاسد سے بالخصوص مسلم معاشرہ دوچار ہوگا، وہ خودکشی جیسے اقدام سے کسی قدر کم نہیں۔ اس صورت میں مسلمانوں کو اس پر عمل کرنے کی اجازت ہوگی یا نہیں یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کیا جانا از حد ضروری ہے۔ کیوں کہ الٰہی شریعت کا کردار ایک شفیق طبیب کی طرح ہے جو مریض کی حالت، عادت مرض کی قوت اور ضعف کے تقاضے کے مطابق مریض کو مرض کی اصلاح پر آمادہ کرتا ہے، یہاں تک کہ جب مریض کی صحت مستقل ہوجاتی ہے تو اس کے لیے ایک معتدل لائحہ عمل تجویز کردیتا ہے جو اس کے تمام حالتوں کے مناسب ہوتا ہے۔(۶)

          اس سلسلہ میں اسلام کا موقف کیا ہے اس کے جاننے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ پر غور کریں کہ اسلام میں انسان کی جان کی کیا قدروقیمت ہے اورکسی بندہ کو اپنی جان کے ختم کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ جب کوئی انسان بیمار پڑتا ہے تو اس بارے میں مریض، اس کے رشتہ دار اور ڈاکٹروں کا کیا فریضہ بنتا ہے۔ اس کے بعد بآسانی فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام قتل حیات بہ جذبہٴ رحم (Euthanasia)کی اجازت دیتا ہے کہ نہیں اوراگر دیتا ہے تو کیوں اورنہیں دیتا ہے تو کیوں اور اس میں کون سی مصلحت مضمر ہے؟

زندگی خدا کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک امانت ہے:

          انسان دنیا میں آتا ہے تو پہلے اسے بڑے دشوار مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ۹ مہینے مادر شکم میں رہتا ہے جو ایک طرح سے اس کی دنیا ہوتی ہے۔ پھر وہ ایک خاص وقت میں کٹھن مرحلہ سے گزر کر اس دنیا میں آتا ہے۔ اس وقت نوزائدہ بچے پر کیا گزرتی ہے وہ وہی جانتا ہے، مگر وہ اس تکلیف کا بعد میں اظہار نہیں کرسکتا۔ اسی طرح اس کی ماں کی جو حالت ہوتی ہے اس کا دکر قرآن مجید میں اس طرح کیاگیا ہے:

          حَمَلَتْہُ اُمُّہُ کُرْہاً وَّ وَضَعَتْہُ کُرْہًا. (احقاف:۱۵)

(پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے اس کو اور جنا اس کو تکلیف سے)

          یہ مشیت خداوندی ہے کہ اتنی سخت تکلیف کے باوجود عورت دوسرا بچہ جننے کے لیے عمر کے ایک خاص حصے تک تیار رہتی ہے، ورنہ اس تکلیف کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ ایک بچہ جننے کی تکلیف کا تصور کرکے آئندہ دوسرا بچہ پیدا کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس حالت میں کسی کی موت ہوجاتی ہے تو وہ شہادت کی موقت قرار دی گئی ہے۔ جیساکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          والمراة تموت بِجُمْع شہید. (۷)

          پیدائش کے بعد سے لے کر بچہ کے ہوش سنبھالنے تک اس کی بڑی حفاظت کی جاتی ہے۔ اگر بچہ کو ہلکی سی بھی تکلیف ہوتی ہے تو ماں تڑپ اٹھتی ہے اوراس کی بے چینی اسے سکون سے رہنے نہیں دیتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ بظاہر بچہ کی دیکھ بھال اوراس کی حفاظت والدین کرتے ہیں، مگر درحقیقت اس کی ساری نگہبانی خدائے عزوجل کررہا ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہے۔ ایسی صورت میں انسان کی جان کا مالک بھی خدا ہی ہے جس نے اس کو پیدا کیا اور وہی اس کی جان ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ اگر کوئی اس کے عطا کردہ وجود میں خلل ڈالتا ہے یا اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ عند اللہ مجرم ہے:

”زندگی اور اس کے مسائل کے بارے میں اسلام کا نقطئہ نظر موجودہ نقطئہ نظر سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ وہ اس دعویٰ ہی کو تسلیم نہیں کرتا کہ انسان اس دنیا میں کسی بھی چیز کا حتی کہ اپنی دات کا مطلق مالک ہے اور وہ اس میں اپنی آزاد مرضی سے تصرف کرسکتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ پوری دنیا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور وہ اسے چلارہا ہے۔ اس لیے وہی اس کا حقیقی مالک بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان خود سے نہیں آیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اس کے لیے سامان زیست فراہم کیا ہے۔ اس لیے وہی اس کی ذات پر مالکانہ اقتدار بھی رکھتا ہے۔ انسان اپنی ذات یا اپنے کسی اقدام کے بارے میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کرسکتا، ورنہ اس کی حیثیت اس مجرم کی ہوگی جو دوسرے کی چیزوں کو اپنی مرضی سے استعمال کرے اور ان کے بارے میں فیصلے صادر کرتا پھرے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو یہ فیصلہ کرنے کا حق ہی نہیں ہے کہ اسے کب تک دنیا میں رہنا ہے اور کب یہاں سے کوچ کرنا ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی فیصلہ کرے گا کہ زندگی کب واپس لی جائے گی۔“(۸)

          اللہ کے نزدیک کسی انسان کی جان کتنی محترم ہے اوراس کا اس دنیا میں آنا کتنا ضروری ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ تنگ دستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے تاکہ وہ اس کی پرورش کے بوجھ سے آزاد رہیں۔ مگر اسلام نے نہ صرف اس کی مخالفت کی بلکہ اس فعل کو حرام قرار دیا اور فرمایا:

          وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلاَدَکُمْ خَشْیَةَ اِمْلاَقِ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاَیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَہُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا. (بنی اسرائیل:۳۱)

(اورنہ قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بھی، بے شک ان کا مارنا بڑی خطا ہے)

          ایک اور مقام پر اسی بات کو اس طرح بیان کیاگیا ہے:

          وَلاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلاَدَکُمْ مِنْ اِمْلاَقٍ، نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاہُمْ. (انعام:۱۵۱)

          دونوں آیتوں میں الگ الگ دولوگوں کو خطاب کیاگیا ہے۔ ایک وہ ہیں جو فی الحال مفلس تو نہیں ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ جب عیال زیادہ ہوں گے تو کہاں سے ان کو کھلائیں گے۔ جب کہ دوسرے طبقہ کو عیال سے پہلے اپنی روٹی کی فکر ستارہی تھی۔ اس لیے ایک جگہ خشیة املاق اور دوسری جگہ من املاق کے ذریعہ خبردار کیاگیا کہ تم کو رزق کے بارے میں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔(۹)

          اگر کوئی آدمی کثرت اولاد کے بوجھ سے چھٹکارا پانے کے لیے بچے کووجود میں آنے سے قبل ہی ماں کے شکم میں تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسلام اس عمل کو حرام ٹھہراتا ہے۔ یا پھر سرے سے ہی کوئی شخص یہ چاہے کہ عورت دوسرا بچہ ہی نہ جنے اوراس کے لیے وہ احتیاطی تدابیر عمل میں لاتا ہے تو اس عمل کو بھی اسلام نے اچھا قرار نہیں دیا ہے:

          ”جَاءَ رَجُلٌ مِنْ اَنْصَارِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہ ﷺ اِنَّ لِیْ جَارِیَةً اَطُوْفُ عَلَیْہَا وَاَنَا اکْرَہُ اَنْ تَحْمِلَ فَقَالَ اِعْزِلْ عَنْہَا اِنْ شِئْتَ فَاِنَّہ سَیَاْتِیْہَا مَا قُدِّرَ لَہَا قَالَ فَلَبِثَ الرَّجُلَ ثُمَّ اَتَاہ فَقَالَ اِنَّ الْجَارِیَةَ قَدْ حَمَلَتْ قَالَ قَدْ اَخْبَرْتُکَ اَنَّہ سَیَاتِیْہَا مَا قُدِّرَ لَہَا“ (۱۰)

          اس طرح کے بہت سے احکام قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی میں ملتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس خالق نے مفلسی کے عالم میں کسی کو وجود بخشا ہے تو وہی اس کو رزق بھی فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا اسے ہی اختیار ہے کہ کب کسی کی جان لی جائے۔ بس انسان کے ذمہ ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اوراس میں کوئی تصرف نہ کرے۔

کوئی بیماری ایسی نہیں جس کا علاج نہ ہو:

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا تو ساتھ ہی اس کے دکھ، درد،آلام ومصائب کے علاوہ راحت وسکون اور صحت و تندرستی کو بھی اس کی زندگی کا اہم حصہ بنادیا۔ جب کبھی انسان بیمار پڑتا ہے تو بعضے وقت یہ بیماری بغیر دوا وعلاج کے دو چند روز کے بعد خود ہی ختم ہوجاتی ہے اورآدمی چنگا اورہشاش بشاش ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بعضے وقت بیماری میں شدت ہوتی ہے اور تکلیف بھی، تو بغیر دوا اور ڈاکٹروں کی مدد کے اس کی بیماری ختم نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی حفاظت اور علاج و پرہیز اسے تندرست و توانا بنادیتا ہے اور ذرا سی بے توجہی اس کی زندگی کو خطرہ میں ڈال دیتی ہے۔ ایسی صورت میں انسان کا فریضہ ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت اور تندرست رکھنے کے لیے مناسب ادویہ اور تدابیر اختیار کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا اور اس کی وجہ سے اس کی جان کو کوئی خطرہ پہنچتا ہے تو وہ عند اللہ گنہگار ہوگا، کیوں کہ صحت و تندرستی کے برقرار رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بیماری بھی رکھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری ہے جس کا اس نے تریاق یااس کی دوا نہ پیدا کی ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

          مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ دَاءً الا اَنْزَلَ لَہ شِفَاءً (۱۱)

(کوئی ایسی بیماری نہیں اُتاری اللہ نے جس کی شفا نہ پیدا کی ہو)

          ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار لوگوں کو علاج کرانے اور دوا کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اَنْزَلَ الدَّوَاء الَّذِیْ اَنْزَلَ الْاَدْوَاء (۱۲)

(دوا بھی اتاری اس ذات نے جس نے بیماریاں اتاری ہیں)

          اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اوراسکی زندگی کا ایک عنصر صحت و تندرستی اوربیماری کو بھی بنایا اور بیماری کے ساتھ اس نے دوا بھی پیدا کی تاکہ وہ اس کو استعمال کرکے تندرست ہوجائے۔ مگر بعض وقت مریض اپنی صحت کے لیے جو دوا تجویز کرتا ہے وہ دوا تو ٹھیک ہوتی ہے مگر وہ اپنا اثر نہیں دکھاتی اور بے اثر ہوکر رہ جاتی ہے جس سے انسان کی زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔ جیساکہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دوا کے بے اثر ہونے کے متعلق فرمایا ہے:

          لِکُلِّ داءٍ دَوَاءٌ فَاِذَا اُصِیْبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَاءَ بِاِذْنِ اللّٰہِ تَعَالٰی.(۱۳)

(ہرمرض کی دوا ہے جب دوا لگ جاتی ہے تو اللہ کے حکم سے صحت ہوجاتی ہے)

          اسی لیے فقہا نے لکھا ہے کہ صحت کی بحالی کے لیے دوا کرنا مباح ہے، بشرطیکہ اعتقاد یہ ہوکہ شفا دینے والا اللہ ہے اور صرف یہ اعتقاد ہو کہ دوا ہی شافی ہے تو جائز نہیں ہے۔(۱۴)

معالج کا جان کار ہونا ضروری ہے:

          اسلام نے صحت کی حفاظت کیلئے تجربہ کار اور علم رکھنے والے ڈاکٹروں سے رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ کیوں کہ حاذق طبیب ہی مریض کی صحت کو اچھی دوا کے ذریعہ بروقت بحال کرسکتا ہے اور وہ یہ رائے دے سکتا ہے کہ کون سی چیز اس کو تندرست رکھنے میں مفید ہوسکتی ہے اور کون سی غیرمفید۔ چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے جس کے راوی حضرت سعد رضی اللہ عنہ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے تشریف لائے، میرے سینہ پر دست مبارک رکھا، میں نے اپنے قلب کے اندر اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔ آپ نے فرمایا: تمہیں دل کی شکایت ہے تم قبیلہ ثقیف کے حارث بن کلدہ کے پاس جاؤ وہ اس مرض کا علاج کرتا ہے۔ اس تکلیف میں آدمی کو مدینہ کے سات اچھی قسم کے چھوہارے گٹھلیوں سمیت کٹواکر پھانکتے رہنا چاہیے۔(۱۵)

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف جان کار اور تجربہ کار ڈاکٹروں سے دوا علاج کرنے کا حکم دیا بلکہ ساتھ ہی آپ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ناواقف اور ناتجربہ کار طبیب سے علاج نہیں کرانا چاہیے، اس سے نہ صرف صحت خراب ہوتی ہے بلکہ جان کے ہلاک ہونے کا پورا پورا خطرہ رہتا ہے۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناواقف ڈاکٹروں کو بھی خبردار کیاہے کہ بغیر صحیح جان کاری کے کسی کا علاج نہیں کرنا چاہیے:

          مَنْ تَطَبَّبَ وَلاَ یُعْلَمُ مِنْہُ طِبٌّ فَہُوَ ضَامِنٌ. (۱۶)

(طب کو اچھی طرح نہ جاننے کے باوجود جس نے علاج کیا اوراس سلسلہ میں وہ متعارف نہیں تھا تو وہ کسی بھی نقصان کا ضامن ہوگا)

          ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:

          اَیُّمَا طَبِیْبُ تَطَبَّبٌ عَلٰی قَوْمٍ لاَّ یُعْرَفُ لَہ تَطَبَّب قَبْلَ ذٰلِکَ فَاَعْنَتَ فَہُوَ ضَامِنٌ.(۱۷)

(جس شخص کا پہلے سے طبیب ہونا معلوم نہیں تھا، اس نے لوگوں کا بہ تکلف علاج کیا اور نقصان پہنچایا تو وہ ضامن ہوگا)

چند مستثنیات کے ماسوا ہر بیماری کا علاج بندہ کے اختیار میں ہے:

          علاج کے بعد بھی بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔ اس میں ایک موت ہے اور دوسرا بڑھاپا۔ موت کسی کی واقع ہونے والی ہے تو کتنی ہی احتیاطی تدابیر اختیار کیوں نہ کرلی جائیں اسے کوئی روک نہیں سکتا اور وہ وقت معینہ پر آکر رہے گی۔ اسی طرح بڑھاپے کو بھی کوئی دوا ٹال نہیں سکتی، کیوں کہ بڑھاپا طاری ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ اب اس کا کام اس دنیا سے ختم ہوگیا اس لیے اسے بڑھاپے کی منزل میں پہنچادیاگیا جس میں وہ کچھ دن مبتلا رہ کر اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          تداووا عباد اللّٰہ فان اللّٰہ عزوجل لم ینزل داء الا انزل معہ شفاء الا موت والہرم.(۱۸)

(اللہ کے بندو! علاج کراؤ اس لیے کہ اللہ عزوجل نے موت اور بڑھاپے کے سوا جو بھی بیماری اتاری ہے اس کے لیے شفا بھی رکھی ہے)

          ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج اللہ نے پیدا کیا ہے مگر بڑھاپے کا کوئی علاج نہیں:

          ”تَدَاوَوْ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ یَضَعْ دَاءً لاَ وَضْعَ لَہ شِفَاءً غیر او قال دواءً الا داءً واحدًا فقالوا یا رسول اللّٰہ ﷺ وما ہو؟ قال الہرم.“(۱۹)

کیا انسان نے بعض بیماری کے علاج میں کامیابی حاصل نہیں کی ہے؟

          باوجود اس کے بعض بیماریاں ایسی ہیں جن کا علاج اطبا ڈھونڈھنے میں اب تک ناکام ہیں۔ یہ انسانوں کی کم علمی ہے نہ کہ خالق کائنات کا نقص۔ اسی لیے تو قرآن میں متعدد مقام پر اہل ایمان کو مخاطب کیاگیا ہے کہ تم کائنات کی تخلیق پر غور نہیں کرتے، تم اشیا کے رموز و حقائق کے جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے، تمہیں اتنا شعور کیوں نہیں کہ تم نامعلوم چیزوں کا علم حاصل کرلو۔

          دنیا نے دیکھا ہے کہ انسان جن نامعلوم چیزوں کے جاننے کی کوشش برابر کرتے رہے انہیں اس میں کامیابی مل گئی۔ کینسر جو کسی زمانے میں لاعلاج بیماری تصور کیا جاتا تھا آج اطبا نے اس کا کلی علاج تو نہیں البتہ اس کے انسداد کا حل کافی حد تک تلاش کرلیاہے۔ سیکڑوں مریض دوا کے سہارے آج زندہ ہیں چہ جائے کہ ان کی جان کا خطرہ لگارہتا ہے۔ یہ کیاکم ہے کہ ان کا عرصہ حیات تنگ نہیں ہوا ہے۔ اگر بیماری پہلے اور دوسرے مرحلے ہی میں تھی اور بروقت اس کا علاج شروع کردیاگیا تو یہ بیماری بھی ختم ہوجاتی ہے۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندازہ تھا کہ بعض بیماریوں کا علاج ابھی انسان کی دسترس سے باہر ہے، لہٰذا آپ نے لوگوں کو اس میں کامیابی حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          اِنَّ اللّٰہَ لَمْ یُنْزِلَ دَاءً اِلاَّ اَنْزَلَ لَہ شِفَاءً عَلِمَہُ مَنْ عَلِمَہُ وَجَہِلَہُ مَنْ جَہِلَہُ.(۲۰)

(اللہ نے کوئی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کی شفا بھی اتاری ہے، جاننے والا اسے جانتا ہے، نہیں جاننے والا نہیں جانتا۔)

          حالات اور وقت کے ساتھ آدمی کی ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔ پہلے طب میں وہ سہولتیں نہیں تھیں جو آج کے زمانے میں ہیں اور آئندہ بھی مزید سہولتیں فراہم ہوں گی (انشاء اللہ) جو مریض اور طبیب کے لیے تقویت کا باعث ہوں گی۔ چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ:

          وفی قولہ لکل داء دواء، تقویة لنفس المریض والطبیب وحث علی طلب دلک الدواء والتفتیش علیہ، فان المریض اذا استشعرت نفسہ ان لدائہ دواءً یزیلہ تعلق قلبہ بروح الدجاء، وبرد من حرارة الباس والفتح لہ باب الرجاء ومتی قویت نفسہ انبعثت حرارتہ العزیزیة وکان ذلک سببا لقوة الارواح الحیوانیة والنفسانیہ والطبییعیة ومتی قویت ہذہ الارواح قویت القوی التی ہی حاملة لہا فقہرت المرض عرفعتہ ولدلک الطب اذا علم ان لہذا الداء دواءً امکنہ طلبہ والتفتیش علیہ.“(۲۱)

(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کل داء دواء مریض اور طبیب دونوں کے لیے تقویت کا باعث ہے۔ اس میں علاج کے تلاش کی ترغیب بھی ہے۔ اگر مریض کو یہ محسوس ہوکہ اس کا مرض لاعلاج نہیں ہے بلکہ اس کا علاج ممکن ہے تو اس کا دل امید سے بھرجائے گا اورمایوسی ختم ہوجائے گی۔ اس سے وہ اپنے اندر نفسیاتی طور پر مرض پر غالب آنے والی توانائی محسوس کرے گا۔ اسی طرح طبیب کو جب معلوم ہوگا کہ ہر بیماری کی اللہ نے دوا رکھی ہے تو تلاش وجستجو اس کے لیے ممکن ہوگی)

عیادت سے مریض کی صحت کو تقویت ملتی ہے:

          یہیں سے عیادت کی شرعی حیثیت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب کوئی مسلمان کسی مصیبت اوربیماری میں مبتلا ہوتو دوسرے بھائی کو چاہیے کہ وہ اس کی عیادت کے لیے پہنچے اور مریض کو تسلی بخش باتیں سناکر لوٹے۔ اس سے مریض کی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کے اندر سے مایوسی ختم ہوتی ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میری دیکھ بھال کرنے والے بہت سارے لوگ ہیں۔ کبھی کبھی یہ خیرخواہی مریض کے حق میں اتنی مفید ہوتی ہے کہ دوا بھی اس کا بدل نہیں ہوتی اور بیمارباتوں باتوں میں اچھا ہوجاتا ہے اور بستر مرض سے اٹھ کر چلنے پھرنے لگتا ہے۔ ایسا کرنے سے نہ صرف مریض کے حق میں فائدہ ہوتا ہے بلکہ عیادت کے لیے جانے والے شخص کو بھی اللہ تعالیٰ ڈھیر ساری نیکیوں سے نوازتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:

          مامن مسلم یعود مسلما غدوةً الا صلی علیہ سبعون الف ملک حتی یُمسی وان عاد عشیة الا صَلَّی علیہ سبعون الف ملک حتی یصبح وکان لہ خریف فی الجنة.(۲۲)

(جو مسلمان بھی کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے شام تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں۔ اگر وہ شام کے وقت اس کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس پر رحمت کی دعا بھیجتے ہیں اور جنت میں اس کے لیے پھل ہوں گے)

          ایک دوسری حدیث میں ہے:

          اِنَّ الْمُسْلِمَ اِذَا عَادَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلُ فِی خُرْفَةِ الْجَنَّةَ حَتّٰی یَرْجِعُ(۲۳)

(بے شک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو اس کے وہاں سے واپس ہونے تک وہ جنت کے پھلوں میں رہتا ہے۔)

          عیادت نہ صرف یہ کہ اپنے قریب ترین رشتہ دار کی کی جائے بلکہ اس کے مستحق سارے لوگ ہیں۔ بچہ، بوڑھا، جوان، عورت، مرد، پڑوسی، یہاں تک کہ غیرمسلموں کی بھی کی جانی چاہیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کثرت سے عمل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ فرمایا:

          اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَعُوُدُوا الْمَرِیْضَ وَفَکُّوا الْعَانِیَ.(۲۴)

(بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو،اور قیدی کو چھڑاؤ)

بیماری سے گناہ کم ہوتے ہیں:

          تندرستی کے برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کا واسطہ چھوٹی موٹی بیماری سے پڑتا رہے، تاکہ اس کے جسم سے غیرضروری اجزا اور فضلات کا اخراج ہوتا رہے۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ گناہ کم ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ جس بندے سے خفا ہوتا ہے تو اسے بیماری میں مبتلا کردیتا ہے تاکہ بندہ نے جو گناہ کیاہے اس کی مدافعت ہوجائے۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          مَا مِنْ مُصِیْبَةٍ تُصِیْبُ الْمُسْلِمَ اِلاَّ کَفّرَ اللّٰہُ بِہَا عَنْہُ حَتّٰی الشَّوْکَةِ یُشَاکُہَا بِہَا(۲۵)

(مسلمانوں کو جوبھی تکلیف پہنچتی ہے یہاں تک کہ اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹادیتا ہے)

          اگر کسی مومن بندے کو یہ اندازہ ہوجائے کہ بیماری اور مصیبت کے ذریعہ اسے کتنا بڑافائدہ پہنچنے والا ہے تو وہ یہی چاہے گا کہ ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہے۔ جیساکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

          یَوَدُّ اہل العافیة یوم القیامة حین یُعْطٰی اہلُ البلاء الثوابَ لَوْ اَنَّ جُلُوْدَہُمْ کَانَتْ قُرِضَتْ فی الدنیا بالمقاریض.(۲۶)

(جو لوگ عافیت میں ہیں، قیامت کے دن جب کہ مصیبت زدوں کو ثواب دیا جائے گا، یہ چاہیں گے کاش! دنیا میں قینچیوں سے ان کی کھالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جاتے)

          ایک دوسری حدیث میں بیماری کو مسلمانوں کے لیے ایک نعمت اور اس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیتے ہوئے فرمایاگیا:

          مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُصِیْبُہُ اَذًی شَوْکَةٌ فَمَا فَوْقَہَا اِلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بِہَا سَیْئاتِہ کما تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَہَا.(۲۷)

(جس مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بڑی کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کی غلطیوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرادیتا ہے)

          علامہ ابن قیم نے بیماری کو مومنین کے لیے گناہوں کا کفارہ قرار دینے کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی کی اس نصیحت کو نقل کیا ہے جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی کہ مصیبت اورپریشانیوں میں مبتلا ہونے کے بعد رنجیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے خدا کا عطیہ اور نعمت تصور کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

”شیخ عبدالقادر نے فرمایا اے میرے بیٹے مصیبت تجھے ہلاک کرنے کے لیے نہیں آتی بلکہ تیرے صبر وایمان کا امتحان لینے آتی ہے۔ نیز اس کا علاج یہ بھی ہے کہ تو سوچے کہ اگر دنیا میں مصائب ومحن نہ ہوتے تو بندے عجب و فرعونیت، شقاوت قلبی جیسے امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جن سے آدمی دنیا میں اورآخرت میں ہرجگہ تباہ وبرباد ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس لیے یہ تو ارحم الراحمین کا کمال رحمت ہے کہ بعض اوقات وہ مصائب کی دوا استعمال کرادیتا ہے جن کے باعث امراض سے تحفظ رہتا ہے اور صحت عبدیت قائم رہتی ہے۔ نیز کفر و عدوان و شرک وغیرہ کے فاسد مادوں کا استفراغ جاری رہتا ہے۔ بس پاک ہے وہ ذات جو ابتلا کے ذریعہ رحم فرماتی ہے اورانعامات کے ذریعہ ابتلا میں ڈال دیتی ہے، جیسا کہ مشہور شعر ہے:

قد ینعم اللّٰہ بالبلوی وان عظمت       ویبتلی اللّٰہ بعض القوم بالنعم

(یعنی گاہے گاہے اللہ تعالیٰ مصائب کے ذریعہ انعام فرماتا ہے، اگرچہ وہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، اللہ تعالیٰ بعض اقوام پر انعام کرکے انہیں ابتلا میں ڈال دیتا ہے۔)(۲۸)

بیماری میں صبر کی اہمیت:

          اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے جس بندے سے زیادہ محبت کرتا ہے اسے اتنی ہی بڑی ابتلا وآزمائش میں بھی مبتلا کرتا ہے تاکہ اندازہ لگائے کہ میرے بندہ کا مصیبت میں کیا رویہ رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے تو اسے مصیبت میں ڈال دیتا ہے۔“(۲۹) اس طرح کی اور دوسری احادیث ہیں جن سے اسی مفہوم کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں مومن بندے کا رویہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہر حال میں صبر کرے اور اسے اپنی تکالیف کا مداوا تصور کرے۔ اگر وہ ناشکری اور جزع وفزع کرتا ہے تو وہ اپنی تکلیف میں اضافہ ہی کرتا ہے کیوں کہ صبر سے تکالیف میں برداشت کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اوراس سے قوت ارادی مضبوط ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

          یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوٰةِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ. وَلاَ تَقُوُلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَاءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ. وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ. اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَةٌ وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ. (البقرہ:۱۵۳-۱۵۷)

(اے ایمان والو! مد طلب کرو صبر اور نماز کے ذریعہ، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، جو لوگ اللہ کے راستے میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں لیکن تم محسوس نہیں کرتے۔ ہم ضرور تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک کے ذریعہ اور مالوں، جانوروں اور پھلوں میں کمی کرکے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنادو جن پراگر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف جانا ہے۔ ایسے ہی لوگوں پر ان کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں)

          بعض صحابہ کرام بیماری میں مبتلا ہوتے تو وہ دوا علاج ترک کردیتے اور صبر و شکر کو ہی اس کا مداوا سمجھتے تھے جس کی اللہ کے رسول نے ممانعت کی اور فرمایا کہ صحت کو تندرست رکھنے کے لیے دوا بھی ضروری ہے اور صبر بھی ضروری ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت مرگی کی بیماری میں مبتلا تھی جب اس پر دورہ پڑتا تو اسے کپڑوں کی خبر نہ رہتی اور وہ بے ستر ہوجاتی تھی۔ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم چاہو تو دعاکروں اور چاہو تو صبر کرو۔ اللہ تعالیٰ اس کے عوض جنت عطا فرمائے گا۔ اس پر اس نے کہا تب تو میں صبر کروں گی۔ البتہ آپ دعاء فرمائیے کہ دورہ کی حالت میں میری بے ستری نہ ہو۔ آپ نے اس کی دعا فرمائی۔(۳۰) اس عالم پریشانی میں جو بندہ صبر کرتا ہے اللہ کے نزدیک اس کا مقام بہت بلند ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے:

          وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاسَاءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاسِ. اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ. (البقرہ:۱۷۷)

(وہ لوگ جو صبر کرتے ہیں تنگی ترشی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت، یہی لوگ سچے ہیں اور یہی تقویٰ والے ہیں)

          صبر وشکر کو مومن کا خاص وصف قرار دیتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”مومن کا معاملہ کتنااچھا ہے کہ وہ جس حال میں بھی ہوتا ہے وہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، یہ بات مومن کے سواکسی کو حاصل نہیں ہوتی، اگر وہ مسرت سے ہم کنار ہوتو شکر کرتا ہے، یہ اس کے لیے بہتر ہوتا ہے،اگر تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے، یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔“(۳۱)

          اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں، نبیوں اورنیک بندوں کو بڑی مشکلات، سخت سے سخت بیماری اورآزمائش میں مبتلا کرکے ان کے صبر کا امتحان لیا ہے، مگر وہ ہر حال میں صبر کرتے رہے جس کے صلے میں اللہ نے ان کے مرتبہ کو بلند فرمایا۔ صبر ایوب سے کون واقف نہیں ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام مہلک ترین بیماری میں ایک لمبے عرصہ تک مبتلا رہے، پھر بھی انھوں نے صبر کے علاوہ لفظ شکوہ اپنی زبان پر کبھی آنے نہیں دیا۔ اس بیماری میں ان کے تمام قریبی لوگ ساتھ چھوڑ گئے مگر ان کی بیوی ۱۸ سال تک خدمت کرتی رہیں۔ ان کی تکلیف کی شدت کی وجہ سے بعضے وقت ان کی بیوی بھی کرب والم میں مبتلا ہوجاتی تھیں۔ ایک دن بہ جذبہ ہمدردی ان کی بیوی نے کچھ ایسے الفاظ کہے جو صبر ایوب کے منافی تھا اور خدا کی جناب میں شکوہ کا پہلو لیے ہوئے تھا، اس پر وہ اپنی مونس و غم خوار بیوی سے ناراض ہوگئے اور کہا کہ تم نے کفران نعمت کی ہے اس کی سزا میں تم کو ضرور دوں گا۔(۳۲) اس صبر کے صلہ میں اللہ نے ان کے درجات بلند کیے جس کا دکر قرآن میں اس طرح کیاگیا ہے:

          وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ، فَاسْتَجَبْنَا لَہ فَکَشَفْنَا مَا بِہ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَہْلَہ وَمِثْلَہُمْ مَعَہُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ. (انبیا:۸۳-۸۴)

(اور یاد کرو جب ایوب نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔ ہم نے اس کی پکار سنی اوراسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی۔ ہم نے اسے اس کے اہل وعیال دئیے اور اس کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دئیے۔ یہ رحمت ہے ہماری طرف سے اور عبادت کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے)

          صبر کے ذریعہ نہ صرف دنیوی واخروی درجات بلن ہوتے ہیں بلکہ اس سے مریض کی صحت پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ کیوں کہ جوآدمی بیماری کی حالت میں صبر کرے گا اسے اپنی تکلیف کا بوجھ ہلکامعلوم ہوگااور اس کی امیدیں اور نیک خواہشات برآئیں گی۔ چنانچہ دوران بیماری صبر کی افادیت اوراہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا جلال الدین عمری لکھتے ہیں:

”مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لاعلاج ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے۔ جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے انسان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتا، لیکن یہ صبر کا غلط تصور ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع فزع اور گھبراہٹ کا مظاہر ہ نہ کرے، شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کا مقابلہ کرے،جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیار کرے اور نتیجہ اللہ کے حوالے کردے۔ اس سے انسان کی قوت ارادی (Will Power) مضبوط ہوتی ہے اورآدمی کے اندر خوداعتمادی اور خدا اعتمادی پیدا ہوتی ہے، مریض کے اندر مضبوط قوت ارادی ہو تو وہ مرض کا بڑی ہمت اور پامردی سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ایک واقعہ ہے کہ جن مریضوں کی قوت ارادی مستحکم ہوتی ہے وہ مایوس اور بے صبر مریضوں کے مقابلہ میں لمبی زندگی پاتے ہیں“۔(۳۳)

موت کی دعا نہیں کرنی چاہیے:

          ہر انسان کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔ بعض بیماری قابل علاج ہوتی ہے تو کوئی لاعلاج اور زندگی بھر وہ کرب و الم کی دنیا میں زندہ رہتا ہے، ایسی حالت میں وہ چاہتا ہے کہ اس لاعلاج بیماری اور تکلیف بھری دنیا سے کسی طرح نجات پالے جس کے لیے وہ بعضے وقت دعاکرتا ہے کہ اللہ تو مجھ کو اس تکلیف دہ زندگی سے نکال کر موت دے دے، جو درست نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بیماری اسی لیے طاری کرتاہے کہ اس کے اندر قوت برداشت کا داعیہ پیدا ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی دعاء کرنے سے منع فرمایاہے:

          لاَ یَتَمَنَّیَنَّ اَحدُکُمُ الْمَوْتَ مِنْ ضُرِّ اَصَابَہ فَاِنْ کَانَ لاَ بُدَّ فَاعِلاً فَلْیَقُلْ اللّٰہُمَّ اَحْسِیِنْی مَا کَانَتِ الْحَیَاةُ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَتِ الْوَفَاةُ خَیْرًا لِیْ. (۳۴)

(تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کو پہنچے تو موت کی تمنا نہ کرے،اگر کسی وجہ سے بالکل ضروری ہوجائے تواس طرح کہے اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ زندہ رہنا میرے حق میں بہتر ہو اور جب موت میرے حق میں بہتر ہے تو موت دے دے)

          مصائب ومشکلات اور بیماری تو وقتی چیز ہے۔ یہ کبھی جلد رفع ہوجاتی ہے اور کبھی وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اسکامقابلہ نہ کرے۔ اللہ نے انسان کو دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے اور اپنی عبادت کے لیے پیداکیا ہے تو پھر کیوں نہ اس کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو یہ بزدلی ہے اور مومن کے شان کے خلاف ہے اور کفران نعمت ہے۔ اندازہ لگائیے کہ صحابہ کرام کے زمانہ میں بعض بیماری کا بہتر علاج گرم لوہے سے داغنے کا تھا۔ جس کی تکلیف سے آدمی کی ہڈی چرمراجاتی تھی باوجود اس تکلیف کے وہ زندہ رہنے کو ترجیح دیتے تھے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو بطور علاج گرم لوہے سے سات داغ لگائے گئے، اس سے انہیں سخت تکلیف ہوئی باوجود اس کے انھوں نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی دعا کرنے سے منع فرمایا ہے ورنہ تکلیف اتنی سخت ہے

میں بہت عظیم ہوں جو کہ بہت ہی عظیم علمی کام کررہا ہوں